نئی صنعتی پالیسیوں سے پاکستان کی ترقی کی راہ ہموار

newsdesk
4 Min Read

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت ہارون اختر خان سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے ایک وفد نے ملاقات کی، جس میں نئی صنعتی پالیسی، بزنس کمیونٹی کے مسائل اور معیشت کی ترقی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفد نے ہارون اختر خان کو کامیاب انڈسٹریل پالیسی متعارف کرانے پر مبارک باد بھی پیش کی اور نئی پالیسی کے فوائد واضح کیے۔

ہارون اختر خان نے گفتگو کے دوران کہا کہ صنعتی شعبے کی ترقی کے بغیر ملک کی مجموعی ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈسٹریل پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹیز قائم کی گئیں اور آکسفورڈ کے کنسلٹنٹس سے بھی رہنمائی حاصل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نئی پالیسی میں بینک کرپسی کا نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت قرض دار کو ایک سال کی مہلت دی جائے گی، جس کے بعد قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔ ہارون اختر خان نے یہ بھی بتایا کہ ایف بی آر کو بزنس کمیونٹی کو ہراساں نہ کرنے کے لیے قائل کیا گیا ہے اور مسلسل کوششوں کے بعد تاجر برادری پر چور کا لیبل ختم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی موجود ہے، تاہم قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں یہ بجلی خریدنے سے قاصر ہیں۔ ہارون اختر خان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث بجلی کی قیمتوں میں کمی بڑا چیلنج ہے، جبکہ دنیا کے تمام ممالک صنعتی شعبے کو فروغ دے کر ہی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔

صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اس موقع پر کہا کہ نئی انڈسٹریل پالیسی ملک کی معیشت کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت صنعتی شعبے کے لیے ٹیرف اور پیداواری لاگت میں کمی لائی جائے گی، جس سے مقامی صنعتیں دوبارہ فعال ہوں گی، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ کاروبار دوست اور طویل المدتی پالیسیاں ملک کو معاشی ترقی کے صحیح راستے پر ڈال سکتی ہیں۔ ان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرنے اور کاروباری طبقے کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہیں۔

پیٹرن انچیف یو بی جی ایس ایم تنویر نے بھی گفتگو میں کہا کہ صنعتی شعبے کے لیے بجلی اور توانائی کی قیمتوں میں کمی ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق مہنگی بجلی کے باعث خصوصاً پنجاب کی صنعتیں شدید مشکلات کا شکار ہیں اور اگر توانائی کی قیمتوں کو علاقائی سطح پر مسابقتی بنایا جائے تو پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ صنعتکاروں پر سے چور کا لیبل ختم ہو چکا ہے، جو معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے