نیوٹیک کو ایک ارب روپے کے ضائع شدہ فنڈز، 12.9 ملین روپے کے غلط استعمال اور اضافی اخراجات پر تنقید کا سامنا
ندیم تنولی
اسلام آباد: پی اے سی (پبلک اکاؤنٹس کمیٹی) نے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کے حوالے سے کئی اہم آڈٹ مسائل کا جائزہ لیا، جن میں ضائع شدہ گرانٹس، اضافی اخراجات اور عملی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کمیٹی نے ایک ارب روپے کے ضائع شدہ فنڈز، 12.9 ملین روپے کے غلط استعمال اور 3.69 ارب روپے کے اضافی اخراجات پر سوالات اٹھائے، اور مالی انتظامات اور کارکردگی کی جانچ پر زور دیا۔
کمیٹی کی بحث گرانٹ نمبر 39، نیوٹیک کے آپریشنل بجٹ سے شروع ہوئی، جس میں ایک لاکھ 28 ہزار 9 سو روپے کا ضائع شدہ رقم رپورٹ ہوئی تھی، جبکہ 4 کروڑ 50 لاکھ 61 ہزار روپے کی رقم واپس کی گئی۔ اگرچہ ضائع شدہ رقم کم تھی، لیکن اس بحث نے نیوٹیک کی مجموعی کارکردگی کے حوالے سے وسیع سوالات اٹھا دیے۔ کمیٹی کے ارکان نے سوال کیا کہ کیا اس کے تربیتی پروگرام مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہیں اور کیا نیوٹیک کے کامیابی کے دعووں کی حمایت کے لیے ٹھوس ڈیٹا موجود ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد عامر جان نے کمیشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تربیت حاصل کرنے والوں کا 53% روزگار حاصل کرچکا ہے اور بیورو آف امیگریشن کے ساتھ شراکت داری نے 26,000 افراد کو بیرون ملک روزگار دلانے میں مدد دی۔ تاہم، ارکان اس دعوے سے مشکوک تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس کی کارکردگی کا آڈٹ کرایا جائے۔
اگلا اہم مسئلہ گرانٹ نمبر 104 تھا، جو نیوٹیک کے ترقیاتی بجٹ سے متعلق تھا، جس میں ایک ارب روپے کا ضائع شدہ رقم رپورٹ ہوئی۔ اس رقم کو 250 ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے قیام کے لیے مختص کیا گیا تھا، لیکن منصوبے کا پی سی-I کبھی منظور نہیں ہوا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ فنانس ڈویژن کے سسٹم میں "انسانی غلطی” کی وجہ سے ایک ارب روپے کا ریکارڈ SAP سسٹم میں شامل نہیں ہو سکا، جس کے نتیجے میں واپس کی جانے والی رقم میں تضاد آیا۔ چیئرمین نے سوال کیا کہ اگر رقم جاری نہیں کی گئی تھی تو کیسے ضائع ہو سکتی ہے؟ تاہم، وضاحت کے باوجود کمیٹی اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور اس معاملے کو مزید وضاحت کے لیے التوا میں ڈال دیا۔
کمیٹی نے گرانٹس نمبر 36 اور 102 کا بھی جائزہ لیا، جن میں 3.69 ارب روپے کے اضافی اخراجات رپورٹ ہوئے۔ نیوٹیک نے ان اضافی اخراجات کو بنیادی تنخواہوں میں ردوبدل اور ورلڈ بینک کے "پوسٹ کوویڈ رسپانس” منصوبے سے منسلک اخراجات کے طور پر بیان کیا، جہاں فنڈز یونسیف کے ذریعے جاری کیے گئے کیونکہ حکومت کے اکاؤنٹ کھولنے میں تاخیر ہوئی تھی۔ اگرچہ اس طریقہ کار میں انحراف پر تشویش ظاہر کی گئی، کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کے بعد ان اخراجات کو تسلیم کیا کہ یہ ضروری تھے اور قومی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی تھی۔

