معذور افراد کے لیے قومی ہنر اور خود انحصاری پروگرام

newsdesk
9 Min Read
پاکستان میں معذور افراد کی شمولیت کے لیے قومی ہنر پروگرام، ڈیٹا جمع، ہنر مراکز، تعلیمی رسائی اور روزگار کے مواقع کی مجوزہ حکمتِ عملی۔

معذور افراد کے لیے قومی سطح پر ہنرمند، قابل بناؤ پروگرام شروع کیا جائے
تحریر: ظہیر احمد اعوان
کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے کمزور، محروم اور خصوصی ضرورت رکھنے والے افراد کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ معذور افراد کسی بھی ملک یا قوم کا وہ طبقہ ہیں جو جسمانی یا ذہنی کمزوری کے باوجود بے پناہ صلاحتیں، عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ اگر ریاست اور معاشرہ ان کی رہنمائی، تعلیم اور تربیت کے لیے موثر اقدامات کرے تو یہی لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی اور نوجوان آبادی والا ملک ہے، جہاں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں لاکھوں ایسے افراد موجود ہیں جو مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں اور مناسب تربیت و مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا پا رہے۔ پاکستان میں معذور افراد کی درست تعداد کے حوالے سے مختلف اعدادوشمار سامنے آتے ہیں۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق ملک میں تقریباً 92 لاکھ رجسٹرڈ معذور افراد ہیں، جبکہ غیر سرکاری تنظیموں اور عالمی اداروں کے مطابق یہ تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں وہ افراد شامل نہیں جن کے پاس تاحال معذوری کے سرٹیفکیٹ موجود نہیں یا جو دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے حکومتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکے۔بدقسمتی سے پاکستان میں معذور افراد کے لیے کوئی جامع قومی پالیسی یا مربوط نظام موجود نہیں۔ حکومت کی طرف سے ملنے والے ماہانہ وظائف یا چند فلاحی اداروں کی امداد وقتی ریلیف تو ضرور دیتی ہے، مگر یہ پائیدار حل نہیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت قومی سطح پر “ہنرمند، قابل بناؤ پروگرام” شروع کرے جس کے تحت ملک بھر کے معذور افراد کو نہ صرف تعلیم بلکہ فنی تربیت، ہنر اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔اس وقت ملک کے مختلف شہروں میں فلاحی تنظیمیں اور این جی اوز محدود سطح پر معذور افراد کی مدد کر رہی ہیں، مگر ان کی رسائی ملک کے صرف چند حصوں تک ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک مربوط نظام کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرے، معذوری کی نوعیت کے مطابق درجہ بندی کرے، اور پھر ہر سطح پر اسکول، کالج، یونیورسٹی اور فنی اداروں میں خصوصی پروگرامز متعارف کرائے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے معذور افراد کی شمولیت کو قومی ترقی کا لازمی حصہ بنا لیا ہے۔جاپان میں معذور افراد کے لیے خصوصی ادارے قائم کیے گئے ہیں جنہیں Vocational Rehabilitation Centers کہا جاتا ہے۔ ان اداروں میں معذور افراد کو ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کے مطابق تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔امریکہ میں 1990 میں منظور ہونے والے Americans with Disabilities Act (ADA) کے تحت معذور افراد کو تعلیم، ملازمت، صحت، آمدورفت، حتیٰ کہ عوامی تفریحی مقامات تک مساوی رسائی حاصل ہے۔برطانیہ میں “Access to Work Program” کے تحت معذور افراد کو گھروں سے آن لائن کام کرنے کے لیے تکنیکی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ خود مختار زندگی گزار سکیں۔چین میں حکومت نے معذور نوجوانوں کے لیے خصوصی یونیورسٹیاں قائم کی ہیں جہاں انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی، دستکاری، اور جدید ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ترکی اور ملائیشیا نے بھی معذور افراد کے لیے اسکالرشپس، ٹیکنیکل کورسز اور روزگار کے کوٹے مخصوص کیے ہیں، جس سے ان ممالک میں معذور افراد معاشی طور پر مضبوط ہو چکے ہیں۔ان مثالوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ معذور افراد کو ترس یا ہمدردی کی نظر سے نہیں بلکہ ایک باصلاحیت انسانی سرمائے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں تعلیم و تربیت دی جائے تو وہ سرکاری و نجی اداروں میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسے بے شمار معذور افراد ہیں جنہوں نے تعلیم، کھیل، سیاست، ادب اور سائنس میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ، جو مکمل طور پر جسمانی معذوری کے باوجود بلیک ہولز اور کائنات کے نظریات میں انقلاب لے آئے، اس بات کی زندہ مثال ہیں کہ معذوری انسان کی صلاحیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
پاکستان میں اگر حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو درج ذیل اقدامات پر فوری عمل درآمد ناگزیر ہے:

  1. قومی سطح پر معذور افراد کا مکمل ڈیٹا بینک تیار کیا جائے۔ اس میں ہر شخص کی معذوری کی نوعیت، تعلیمی حیثیت، اور فنی قابلیت کا اندراج ہو تاکہ ان کے لیے موزوں مواقع پیدا کیے جا سکیں۔
  2. ہنرمند پروگرام کے تحت ہر صوبے میں اسکل ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں معذور افراد کو کمپیوٹر، الیکٹرونکس، سلائی کڑھائی، دستکاری اور ڈیجیٹل کاموں میں تربیت دی جائے۔
  3. تعلیمی اداروں میں شمولیت کے مواقع بڑھائے جائیں۔ خصوصی کوٹہ کے ساتھ ساتھ معذور طلبہ کے لیے آن لائن ایجوکیشن سسٹم اور اسکالرشپ پروگرام شروع کیے جائیں۔
  4. سرکاری و نجی اداروں میں روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ موجودہ 2 فیصد کوٹہ ناکافی ہے، اسے بڑھا کر 5 فیصد کیا جائے اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
  5. ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور فری لانسنگ کے ذریعے معذور افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ گھر بیٹھے اپنی محنت سے کما سکیں۔
  6. نفسیاتی اور سماجی بحالی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ معذور افراد کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو اور وہ معاشرتی دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔
  7. قانون سازی کے ذریعے معذور افراد کے استحصال، مذاق یا امتیازی سلوک کے خلاف سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔
    حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معذور افراد کے بارے میں مثبت رویہ اپنائیں۔ عوامی سطح پر آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ معاشرے میں یہ احساس پیدا ہو کہ معذور ہونا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک امتحان ہے جس کا سامنا عزت و حوصلے سے کیا جا سکتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ اگر معذور افراد کو تعلیم، تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی میں بھی بھرپور حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ان کو سڑکوں، فٹ پاتھوں اور چوکوں پر بھیک مانگنے کے بجائے معاشی طور پر خود کفیل بنانا حکومت اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ معذور افراد کے لیے ہمدردی نہیں، بلکہ مواقع پیدا کیے جائیں۔ قومی سطح پر ایک مربوط ’’ہنرمند، قابل بناؤ پروگرام‘‘ کا آغاز پاکستان کو ایک ایسی سمت میں لے جا سکتا ہے جہاں کوئی فرد احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو۔ معذور افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنا صرف انسانی ہمدردی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور قومی ضرورت ہے۔اگر ہم نے آج اس طبقے کو خود مختار بنانے کے لیے سنجیدہ قدم نہ اٹھایا تو یہ معاشرہ کبھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہو سکے گا۔ معذور افراد ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، ان کی صلاحیتیں ہماری قومی طاقت ہیں۔ ضرورت صرف ایک منظم اور نیت پر مبنی حکومتی اقدام کی ہے جو ان افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرے اور پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنائے۔
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے