علمائے کرام کی حمایت سے لڑکیوں کی شادی ۱۸ سال مقرر

newsdesk
5 Min Read
اسلامی اصولوں کی روشنی میں علمائے کرام نے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر ۱۸ سال مقرر کرنے پر اتفاق کیا

اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں مختلف مسلم ممالک کے علماء اور ماہرین نے زور دیا کہ بچوں کی کم عمری کی شادیاں ختم کرنے کا عمل مذہبی اور سماجی دونوں مبانی پر کھڑا ہونا چاہیے۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شادی کی عمر کا تعین ذہنی پختگی، اجتماعی شعور اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہونا چاہیے جو کمزور اور زیرِ کفالت افراد کے تحفظ کو مقدم جانتی ہیں۔یہ اجلاس پوتوہار تنظیم برائے ترقیاتی وکالت کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا جس میں خواتین پارلیمانی گروپ اور وزارتِ انسانی حقوق نے شانہ بہ شانہ تعاون کیا اور ناروے کے شاہی سفارت خانے نے معاونت فراہم کی۔ کانفرنس میں شامل متعدد ملکوں کے علماء اور ماہرین نے اپنی پریزنٹیشنز میں بہترین عملی تجربات اور قانون سازی کے تقاضوں پر روشنی ڈالی جس سے شرکاء کے درمیان ایک متفقہ سوچ پیدا ہوئی۔منصوبہ جاتی کام کے حوالے سے بتایا گیا کہ تین سالہ مہم کا مقصد کم عمری کی شادیاں کم کر کے صنفی مساوات کو فروغ دینا تھا اور اس دوران پنجاب کے چالیس ایک اضلاع میں مختلف شراکت داروں بشمول نکاح خواہوں، رجسٹرارز، والدین، معلمین، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور متعلقہ سرکاری محکموں سے رابطہ کیا گیا۔ اس مہم کے دوران چالیس ہزار سے زائد افراد تک رسائی ممکن ہوئی جس میں وکلاء، اکیڈمیشن اور طبی عملہ بھی شامل رہا۔وزیر مملکت برائے قانون و انسانی حقوق وکیلِ اعلیٰ عقیل ملک نے ملک میں کم عمری شادیاں روکنے کے قوانین کے تاریخی پس منظر کا تذکرہ کیا اور ۱۹۲۹ سے لے کر ۲۰۲۵ تک کے اقدامات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اب قانون سازی کو صوبائی سطح پر ہم آہنگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی تناظر میں پنجاب کمیشن برائے خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے قیصر محمود نے بتایا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل کا مسودہ متعلقہ محکموں کی منظوری کے بعد صوبائی کابینہ کے پاس بھیجا جا چکا ہے اور اس میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال تجویز کی گئی ہے تاکہ وہ بنیادی تعلیم مکمل کر سکیں اور ہنر حاصل کر کے باعزت زندگی گزار سکیں۔کانفرنس کے افتتاحی کلمات وزارتِ انسانی حقوق کے سیکرٹری اور پوتوہار کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سمیعہ نذیر نے ادا کیے جبکہ ملک کے نقطۂ نظر پر مبنی کاغذ وزیرِ انسانی حقوق کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عارف لغاری نے پیش کیا۔ روانڈا کی ہائی کمشنر ہررمانا فاتو نے خواتین کے حقوق کو ترجیح دینے کے عالمی تجربات سے روشناس کرایا اور خواتین پارلیمانی کاؤنسل کی چیئرمین ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے مرکزی خطاب کیا۔بین الاقوامی ماہرین میں بنگلہ دیش کے سیموم رضا تلکدر، انڈونیشیا کی اندی نور فیضہ، نائجیریا کے پروفیسر ڈاکٹر بلارابے ہارونا، مراکش کے پروفیسر ڈاکٹر عزیز مخوات، عمان کے بدر العبری، شام کی ڈاکٹر نادیہ ابو زہ، تونس کی شیماء صلاح الدین حرباوی، یمن کی ڈاکٹر امل باشا اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیا الحق شامل تھے جنھوں نے اپنے اپنے ممالک میں قانون اور سماجی رویوں پر مبنی تجربات سے روشنی ڈالی۔کانفرنس میں سفارشات میں زور دیا گیا کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ میں سزاؤں میں اضافہ کیا جائے تاکہ کم عمری شادیاں روکنے میں مؤثر رکاوٹ بن سکے، لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال تعلیمی تکمیل سے منسلک رکھی جائے، اور مسلم علماء اور مذہبی اداروں کے ساتھ مل کر شعور بیدار کرنے مہم چلائی جائے۔ خواتین کو معاشی اور ہنری تربیت کے ذریعے بااختیار بنانے پر بھی زور دیا گیا تاکہ خاندانوں پر انحصار کم ہو اور خود مختاری بڑھے۔شرکاء نے کہا کہ دینِ اسلام کے تقاضے کمزوروں کے تحفظ پر زور دیتے ہیں اور اسی روح کے تحت شادی کی عمر کے قواعد بنائے جانے چاہئیں تاکہ کم عمر لڑکیوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کو قانونی ضمانت مل سکے۔ آخر میں اجلاس نے ریاستی ذمہ داری کی طرف اشارہ کیا کہ مضبوط قانون سازی کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے