مومنہ عباسی – ملکہ کوہسار کی باہمت بیٹی
تحریر:ظہیر احمد اعوان
مومنہ عباسی معذور ہونے کے باوجود حوصلے، جرات اور بہادری کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہزاروں ایسے معذور افراد ہیں جو مایوسی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر مومنہ عباسی اُن سب کے لیے امید کی کرن بن کر ابھری ہے۔ وہ نہ صرف خود مضبوط ہوئیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روشنی کا مینار بن گئیں۔یہ سال 2013 کی بات ہے جب مومنہ کی عمر صرف 13 سال تھی اور وہ مری کے ایف جی اسکول میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ اسی سال اچانک اُن کی کمر اور ٹانگوں میں شدید درد رہنے لگا۔ مری کے ڈاکٹروں سے علاج کرایا گیا لیکن وہ اسے معمولی کمزوری قرار دیتے رہے۔ چند ماہ بعد اُن کی ٹانگوں نے حرکت کرنا بند کر دی اور 16 اکتوبر 2013 کو وہ مکمل طور پر ویل چیئر پر آگئیں۔ اسلام آباد کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی میں رسولی ہے جس کا آپریشن ناگزیر ہے۔ آپریشن کے دوران حرام مغز کو نقصان پہنچا جس کے باعث وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئیں۔زندگی کے اگلے چار سال مومنہ کے لیے بہت مشکل تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک وقت ایسا تھا جب یقین کرنا مشکل تھا کہ زندگی اتنی بدل گئی ہے۔ لیکن میں نے ہار نہیں مانی، کیونکہ دوسروں کے بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، انسان کو خود اپنے حالات بدلنے ہوتے ہیں۔ میری فیملی نے میرا بہت ساتھ دیا، مگر اصل حوصلہ میں نے خود اپنے اندر پیدا کیا۔ میں نے پرائیویٹ میٹرک اور انٹر کا امتحان پاس کیا اور اب میں ورچوئل یونیورسٹی سے BS English کر رہی ہوں۔مومنہ کہتی ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں زندگی دی ہے تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی مقصد بھی رکھا ہے۔ میں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کیا تاکہ میں کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ وقت کے ساتھ میں نے خود کو اتنا مضبوط کر لیا کہ اب مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ اس خودمختاری نے مجھے اعتماد دیا اور میں اپنی فیملی میں بالکل نارمل انداز میں رہنے لگی۔ڈیجیٹل دور نے میری زندگی بدل دی۔ میں نے اپنے موبائل فون کو علم حاصل کرنے اور آن لائن کام کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ میں نے وائس اوور آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا اور پھر مختلف آن لائن شعبوں سے جڑ گئی۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر انسان سیکھنے کا جذبہ رکھے تو وہ گھر بیٹھے بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔میرا ماننا ہے کہ اللہ پاک نے ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مشکل ضرور رکھی ہوتی ہے، لیکن وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ہمت نہیں ہارتے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ “خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد خود نہیں کرتے۔”الحمدللہ آج میں نے “معذور فاؤنڈیشن” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس کا مقصد معذور افراد کے لیے ویل چیئرز، آلہ سماعت، ادویات اور تعلیم کے لیے مالی مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارہ سرکاری پروگراموں کے بارے میں آگاہی دیتا ہے، معذور افراد کو ان کے حقوق سے روشناس کرواتا ہے اور زندگی سے مایوس لوگوں کو حوصلہ دیتا ہے تاکہ وہ بھی معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔دنیا میں بھی بہت سی ایسی مثالیں ہیں جنہوں نے معذوری کے باوجود تاریخ بدل دی۔ اسٹیفن ہاکنگ مفلوج ہونے کے باوجود کائنات کی سائنسی سوچ بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ نک وُیچیچ بغیر ہاتھ پاؤں کے پیدا ہوئے مگر لاکھوں لوگوں کو زندگی کا حوصلہ دیا۔ ہیلن کیلر بینائی اور سماعت سے محروم تھیں مگر انہوں نے علم و ادب میں اپنا نام روشن کیا۔
مومنہ عباسی کہتی ہیں کہ اللہ پاک کبھی ایسے دروازے بند نہیں کرتا جن کے پیچھے روشنی نہ ہو۔ وہ آج ملکہ کوہسار کی باہمت بیٹی ہونے کے ناطے پاکستان کے ہر نوجوان، خاص طور پر معذور افراد کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔ ان کی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ زندگی اسی کی ہوتی ہے جو ہار ماننے سے انکار کر دے۔
مومینہ عباسی مری کی دلیر اور خودمختار بیٹی
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔
