لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں

newsdesk
9 Min Read
پاکستان میں لاکھوں بچے معیاری تعلیم اور تربیت سے محروم ہیں؛ مدارس اور طبقاتی تقسیم قومی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

تعلیم سے محروم کروڑوں بچے کس کے ہیں؟

تحریر: ظہیر احمد اعوان


دنیا کا ہر باشعور ملک اپنی قوم کی بقا اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ سرمایہ اپنے بچوں کی تعلیم پر لگاتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم صرف معاشی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی استحکام، امن، برداشت اور اجتماعی ترقی کی بنیاد ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک صرف اسکولوں کی دیواریں بنانے پر نہیں بلکہ بچوں کی شخصیت سازی، تربیت، تحقیق اور سیکھنے کے ماحول پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ مگر پاکستان میں صورت حال بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہاں کروڑوں بچے تعلیم اور تربیت سے یکسر محروم ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے بارے میں ریاست نہ سوچتی ہے، نہ منصوبہ بندی کرتی ہے، نہ اُن کے مستقبل کے لیے کوئی حکمت عملی رکھتی ہے۔ہمارے ملک میں مدارس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد کئی ملین میں ہے۔ یہ بچے عموماً غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے والدین سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت انہیں مفت تعلیم، رہائش، کھانا اور بعض جگہوں پر طبی سہولت بھی دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خلا ہے جسے حکومت نے خود پیدا کیا، پھر بھرنے کے لیے مذہبی طبقے کو چھوڑ دیا۔ دنیا میں کسی بھی مہذب ملک میں حکومتیں بچوں کی تعلیم کو خیرات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ معمول بن چکا ہے۔ ریاست صرف دیکھتی ہے کہ بچے کہیں نہ کہیں پڑھ رہے ہیں، چاہے وہ تعلیم وقت کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے بچوں کو قوم کا مستقبل سمجھتے ہیں۔ حکمران صرف اپنے بچوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کے بچوں کو یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں۔ یورپ، جاپان اور جنوبی کوریا اس کی روشن مثال ہیں۔ جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے بعد تمام وسائل تباہ ہو چکے تھے، مگر جاپانی حکومت نے سب سے پہلے تعلیم پر سرمایہ کاری کی۔ ناکہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ اخلاقی تربیت، اجتماعی نظم اور سائنسی سوچ پڑھائی گئی۔ آج جاپان دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا نے 1950 کی جنگی تباہی کے بعد صرف 30 سالوں میں تعلیم پر مسلسل سرمایہ کاری کے ذریعے دنیا کی ٹیکنالوجی معیشت پر قبضہ جما لیا۔ وہاں آج ہر بچے کو کم از کم 12 سال معیاری تعلیم لازمی دی جاتی ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں تعلیم ایک مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کے لیے الگ اسکول، الگ نصاب اور الگ دنیا ہے۔ آپ ملک کے کسی بڑے شہر میں جائیں، ایک طرف ای او لیول، اے لیول اور انٹرنیشنل اسکول ہیں جہاں ماہانہ فیس ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے ہے۔ وہاں جدید لیبز، عالمی نصاب، تربیت یافتہ اساتذہ اور بااعتماد مستقبل دکھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف نجی اسکول ہیں جہاں درمیانے طبقے کے بچے پڑھتے ہیں، جن کی فیس متوسط شہری کی کمر توڑ دیتی ہے۔ پھر سب سے آخر میں سرکاری اسکول ہیں، جو کمزور انفراسٹرکچر، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور جزوی انتظام کے ساتھ بمشکل چلتے ہیں۔ یہاں بچے صرف حاضری پوری کرتے ہیں، تعلیم نہیں پاتے۔اس طبقاتی خلیج سے نیچے وہ بچے ہیں جو کسی اسکول تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جن کے والدین روزانہ دو وقت کی روٹی کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس نہ فیس، نہ یونیفارم، نہ کتابیں۔ یہ بچے یا تو چھوٹی عمر میں مزدوری شروع کر دیتے ہیں، یا مدارس کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ مدرسہ ایک خیراتی ادارے کی طرح انہیں چھت، کھانا اور تعلیم دیتا ہے۔ لیکن اس تعلیم کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ بچے ذہین بھی ہوں تو آگے بڑھنے کا راستہ کم ہوتا ہے۔ ان کی صلاحیت صرف اتنی رہ جاتی ہے کہ وہ ایک عالم، قاری یا معلم بن جائیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا کروڑوں بچوں کی زندگی کا مستقبل صرف ایک ہی راستے تک محدود ہونا چاہیے؟پاکستان کے سرکاری اسکولوں پر سالانہ اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ حکومت ہر صوبے میں ڈیجیٹل مانیٹرنگ، حاضری چیکنگ، استاد کی کارکردگی کے لیے سسٹم چلاتی ہے۔ مگر اس نگرانی سے صرف وہ بچے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اسکول میں داخل ہیں۔ جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن کے نام کبھی رجسٹر پر ہی نہیں آئے، وہ ریاست کے بچے نہیں ہیں؟ اُن کے مستقبل کا فیصلہ کون کرے گا؟ وہ بے آواز لوگ ہیں جو نہ میڈیا پر آتے ہیں، نہ اسمبلیوں میں ذکر ہوتے ہیں، نہ تعلیمی پالیسیوں میں شامل ہوتے ہیں۔دنیا میں غریب ممالک نے بھی راستہ نکالا۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش نے 1990 کے بعد تعلیم کو قومی ایمرجنسی قرار دیا۔ وہاں تمام بچوں کے لیے بنیادی تعلیم مفت اور لازمی کی گئی۔ یونیسیف اور حکومتی اشتراک سے خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ آج بنگلہ دیش کی شرح خواندگی پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔ اسی طرح ملیشیا نے مدرسہ نظام کو قومی تعلیمی ڈھانچے میں ضم کر دیا، جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی مضامین، ریاضی، کمپیوٹر اور تحقیق بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہاں کے طلبہ کی سوچ محدود نہیں بلکہ وسیع ہوئی، اور قومی ترقی میں فعال کردار ادا کیا۔پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی جامع حکمت عملی نہیں۔ یہاں مدرسہ, سرکاری اسکول اور نجی اسکول تین الگ جہان ہیں۔ حکومت نہ مدرسہ بچوں کے لیے خصوصی فنڈ دیتی ہے، نہ انہیں جدید نصاب مہیا کرتی ہے، نہ انہیں ہنرمند بنا کر روزگار کے قابل۔ مدرسے جتنا ممکن ہوتا ہے اپنی مدد آپ کے تحت کام چلاتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس وسائل محدود ہیں۔ ایک خیراتی نظام کب تک وہ خلا بھرتا رہے گا جو حکومت کو خود پورا کرنا چاہیے تھا؟پاکستان میں آج لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں بچے ایسے ہیں جن کا ٹیلنٹ صحیح سمت نہ ملنے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔ یہ بچے ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، فوجی افسر، کھلاڑی یا کاروباری لیڈر بن سکتے تھے۔ مگر وہ مزدور، ہیلپر، گلی کا کاریگر یا کسی فیکٹری کے اوورلوڈ ورکر بن جاتے ہیں۔ ان بچوں کا مستقبل صرف اس لیے محدود ہو جاتا ہے کہ اُن کے والدین کے پاس وسائل نہیں تھے۔ یہ طبقاتی چرخی نسل در نسل منتقل ہوتی جا رہی ہے۔
اگر ریاست واقعی مستقبل دیکھنا چاہتی ہے تو اسے یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک کے بچوں کے بارے میں ایسے ہی فکرمند ہونا ہوگا جیسے وہ اپنے بچوں کے لیے ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو یکساں تعلیم، یکساں تربیت، یکساں عزت اور یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ مدارس، سرکاری اور نجی نظام کو الگ الگ رکھنے کے بجائے یکجا کر کے قومی معیار کی بنیاد رکھنا ضروری ہے۔دنیا بدل چکی ہے۔ 21ویں صدی سائنسی ذہن، ٹیکنالوجی، تحقیق، اجتماعی سوچ اور انسانی اقدار کی صدی ہے۔ جن قوموں نے تعلیم پر سرمایہ کاری کی، وہ آگے نکل گئیں۔ جنہوں نے تعلیم کو خیرات سمجھا، وہ پسماندہ رہ گئیں۔ پاکستان کے پاس وقت کم ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے 25 سے 30 ملین بچے صرف اعداد و شمار ہیں یا ہمارے مستقبل کا سرمایہ۔

Read in English: Millions of Children Deprived of Education and Training

Share This Article
1 تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے