پاکستان میں درآمدی لگژری گاڑیوں کے شعبے میں 17.5 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس نے کسٹمز اور مالیاتی نگرانی کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس اسکینڈل کے باعث پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی معاہدات اور قوانین پر عملداری پر بھی سنگین سوالات اٹھ گئے ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل پوسٹ کلیئرنس آڈٹ (پی سی اے) کی جانب سے کی گئی تفصیلی جانچ میں پتہ چلا کہ لگژری گاڑیوں کی امپورٹ میں بڑے پیمانے پر قیمتیں کم ظاہر کی گئیں۔ پی سی اے نے ایک ہزار تین سو پینتیس گڈز ڈیکلریشنز کی جانچ پڑتال کی، جن میں اکثر گاڑیوں کی اصل قیمت سے بہت کم قیمت لکھی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق جاپان سے درآمد شدہ 2023 ماڈل ٹویوٹا لینڈ کروزر کی مالیت محض 17,635 روپے ظاہر کی گئی، جب کہ اس کی مارکیٹ ویلیو ایک کروڑ سے زائد تھی۔ صرف اس ایک گاڑی پر چوالیس کروڑ سے زائد کے کسٹمز اور ٹیکس بچائے گئے، جو تقریباً سو فیصد کم قیمت دکھانے کی مثال ہے۔
آڈٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ گاڑیوں کے خریدار عموماً اس بات کا ثبوت نہیں دیتے کہ انہوں نے پیسے بیرون ملک سے قانونی طریقے سے بھیجے ہیں، جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس اقدام سے ہوالا اور منی لانڈرنگ جیسے غیر قانونی مالیاتی ذریعوں کے استعمال کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
پی سی اے رپورٹ میں کسٹمز حکام کی جانب سے دستاویزی جانچ پڑتال نہ کرنے اور بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کو بھی شدید غفلت قرار دیا گیا ہے۔ اس عدم توجہ کی وجہ سے امپورٹرز نے فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ سسٹم کا غلط استعمال کیا اور جعلسازی کے ذریعے غلط قیمتیں جمع کروائیں، جس کا پتہ چلنا تقریباً ناممکن ہوگیا۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں اس امر کا بھی انکشاف ہوا کہ کئی افراد اور ادارے نہ صرف درآمدی محصولات، بلکہ اپنی مجموعی آمدن اور اثاثوں کو بھی سرکاری گوشواروں میں کم دکھا رہے ہیں، جس سے بڑی سطح پر ٹیکس چوری کا شک پیدا ہوا ہے۔
پی سی اے نے اس اسکینڈل کو "ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ” کا سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی مالی نگرانی کے اداروں، جیسے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف، کے ساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ مستقبل کے مالی معاہدے بھی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
معاشی ماہرین اور قانونی ماہرین نے فوری اصلاحات اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا تو اس اسکینڈل سے ملک کی تجارتی اور مالیاتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور بیرونی مالی تعاون حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
