پاکستان کی کچی آبادیوں میں صفائی کا بحران، کم لاگت حل ہی صحت اور وقار کی ضمانت

newsdesk
3 Min Read
شہری کچی بستیوں میں سستے، کمیونٹی بنیاد پر حل بچوں کی صحت اور روزگار بچا سکتے ہیں۔ صفائی کے عملی اقدامات سے بیماریوں میں کمی ممکن ہے۔

پاکستان کی کچی آبادیوں میں صفائی کا بحران، کم لاگت حل ہی صحت اور وقار کی ضمانت

ڈاکٹر اسماء فاطمہ مخدوم

پاکستان کے بڑے شہروں کی کچی آبادیوں میں صفائی کی ابتر صورتحال ایک سنگین صحت عامہ کے بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تنگ گلیاں، بہتے ہوئے نالے، جمع شدہ کچرا اور بیت الخلا کی عدم دستیابی نے ایسی فضا قائم کر دی ہے جہاں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ہیضہ اور پیٹ کے کیڑے عام ہو چکے ہیں۔ اس کا خمیازہ صرف بیماریوں کی صورت میں ہی نہیں بلکہ مالی نقصان کی شکل میں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ متاثرہ خاندانوں کو آمدنی کا بڑا حصہ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور کام کے قیمتی دن ضائع ہو جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ناقص صفائی دنیا کے مجموعی مرض کے بوجھ کا تقریباً 10 فیصد سبب ہے، اور پاکستان کی کچی آبادیوں میں یہ حقیقت ہر روز نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ بچوں میں بار بار بیماریاں، خواتین کی عزت نفس کو لاحق خطرات، اور مجموعی طور پر کمیونٹی کی غیر یقینی صحت نے صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے۔ مذہبی اور سماجی اقدار بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اسے نظرانداز کرنا معاشرتی زوال کا باعث ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل بہت مہنگا نہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کمیونٹی کی سطح پر چلنے والے منصوبے مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ بھارت میں بایو ٹوائلٹس کم خرچ میں نصب کیے گئے جو انسانی فضلے کو کھاد میں تبدیل کرتے ہیں، جبکہ کینیا میں کوڑا کرکٹ کی چھانٹی اور ری سائیکلنگ سے نہ صرف علاقے صاف ہوئے بلکہ روزگار بھی پیدا ہوا۔ ایسے ہی اقدامات پاکستان کی کچی آبادیوں میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں جیسے مشترکہ بایو ٹوائلٹس، سادہ ہاتھ دھونے کے مراکز، نالوں کی مرمت اور کوڑا کرکٹ کی باقاعدہ صفائی۔

ماہرین کے مطابق حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کچی آبادیوں کی صفائی پر عدم توجہ کوئی بچت نہیں بلکہ بار بار پھیلنے والی وباؤں کی دعوت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور شہری سیلاب پہلے ہی دباؤ بڑھا رہے ہیں، ایسے میں صفائی ستھرائی پر سرمایہ کاری بقا کا سوال بن چکی ہے۔

پاکستان اگر پائیدار ترقی کے ہدف 3 یعنی "اچھی صحت اور فلاح” حاصل کرنا چاہتا ہے تو کچی آبادیوں کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ صحت مند شہر صحت مند محلوں سے بنتے ہیں اور صحت مند محلے صاف پانی، صاف گلیوں اور وقار کے ساتھ فراہم کردہ بیت الخلا سے شروع ہوتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کے الفاظ آج بھی یاد دلاتے ہیں کہ آزادی سے زیادہ اہم صفائی ہے، کیونکہ کوئی قوم اس وقت تک آزاد نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے لوگ قابلِ تدارک بیماریوں کے شکنجے میں جکڑے رہیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے