لوک ورثہ کے زیر اہتمام وزارتِ قومی ورثہ و ثقافت کے تحت منعقدہ دس روزہ سالانہ لوک میلہ دو ہزار پچیس کا باقاعدہ افتتاح سات نومبر شام پانچ بجے لوک ورثہ اوپن ایئر تھیٹر میں ہوا۔ تقاریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا اور اس موقع پر وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت اورنگزیب خان گھچی مہمانِ خصوصی کے طور پر موجود تھے۔ڈاکٹر محمد وقاص سلیم نے معزز مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ لوک میلہ وفاقی اکائیوں کو ثقافتی انداز میں ایک دوسرے سے جوڑنے کا موثر پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میلہ ماہر دستکاروں اور لوک فنکاروں کو اپنے فن کے مظاہرے اور قومی سطح پر پہچان دلانے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح ہمارا ثقافتی ورثہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔وفاقی سکریٹری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بطور ذمہ دار اس وزارت کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے لوک ورثہ کے پیشہ ورانہ انداز اور پاکستان کی ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے کام کو سراہا اور کہا کہ ایسے اقدامات انتہا پسندی کے خلاف بھی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔مہمانِ خصوصی اورنگزیب خان گھچی نے کہا کہ یہ میلہ حکومت کی ان ترجیحات کا حصہ ہے جو عوامی فلاح و بہبود، ثقافتی ترویج اور صحت مند تفریح کے مواقع فراہم کرنے پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ثقافتی میلوں سے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔میلے کی ایک روایت کے مطابق ہر سال ایک ماہر دستکار، ایک ماہر دستکارہ اور ایک لوک فنکار کو اعزازی طور پر چادر یا پگڑی پہنائی جاتی ہے۔ اس سال گلگت بلتستان کے سنگِ تراشی کے ماہر غلام حیدر اور کشمیر کی معروف لوک گلوکارہ بانو رحمت کو چادر اور پگڑی پہنائی گئی۔ افتتاحی تقریب میں ملک بھر کے مختلف لوک فنکاروں نے اپنی صلاحتیں پیش کیں اور حاضرین کی جانب سے خوب داد وصول ہوئی۔یہ لوک میلہ ستارہ دو عشرہ یکم نومبر تک جاری رہے گا اور عوامی شرکت کے لیے کھلا ہے۔ داخلہ ٹکٹ کی فیس عام افراد کے لیے دو سو روپے فی فرد مقرر ہے جبکہ طلباء کے لیے رعایتی ٹکٹ ایک سو روپے فی فرد ہے۔ لوک میلہ کے پروگرام اور نمائشیں دیکھنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد کی آمد متوقع ہے۔
