مقامی حکومت کی مضبوطی عوامی شرکت کی بنیاد

newsdesk
10 Min Read
مقامی حکومت کے اختیارات عوام تک پہنچنے سے شفافیت، ترقی اور احتساب ممکن ہے۔ پاکستان میں بااختیار بلدیاتی نظام کی ضرورت واضح ہے۔

موثر و بااختیار بلدیاتی نظام عوامی شمولیت کی بنیاد
تحریر: ظہیر احمد اعوان
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام ریاستی ڈھانچے کا ایک لازمی اور بنیادی جزو ہے۔ یہ نظام عوام کو اقتدار میں شمولیت دیتا ہے، ان کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرتا ہے، اور حکومت کے بوجھ کو کم کرتا ہے۔ اگر ہم عالمی ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترقی کی اصل بنیاد مضبوط اور خودمختار بلدیاتی ادارے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی حقیقی جمہوریت اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار گلی، محلوں، دیہات اور یونین کونسل کی سطح تک منتقل ہو۔دنیا بھر کے کامیاب بلدیاتی نظام دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک نے اپنی ترقی کی بنیاد مضبوط مقامی حکومتوں پر رکھی۔ ان ممالک نے عوام کو بااختیار بنایا، جس کے نتیجے میں حکومت عوام کے قریب اور جواب دہ بنی۔برطانیہ میں بلدیاتی نظام کی بنیاد 1835ء کے Municipal Corporations Act سے پڑی، جس نے مقامی حکومتوں کو آئینی اور انتظامی حیثیت دی۔ آج برطانیہ میں ہر شہر اور قصبے کی اپنی Local Council موجود ہے جو تعلیم، صفائی، رہائش، صحت، پارکوں اور سڑکوں کے امور چلاتی ہے۔ ان اداروں کو مقامی ٹیکس اکٹھا کرنے اور اپنے بجٹ تیار کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی شہریوں کو بنیادی سہولتیں ان کے دروازے پر میسر ہیں۔امریکہ میں Local Self-Government کی روایت نوآبادیاتی دور سے موجود ہے۔ وہاں کی ہر ریاست میں ہزارCounty Governmen،City Councils, Tow اور School Boards عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں۔ پولیس، تعلیم، فائر بریگیڈ، ہاؤسنگ اور سینی ٹیشن کے بیشتر امور مقامی سطح پر حل کیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں بلدیاتی اداروں کو آئینی و مالی خودمختاری حاصل ہے، اور شہری جانتے ہیں کہ ان کے ٹیکس براہ راست ان کی فلاح پر خرچ ہو رہے ہیں۔اسکینڈے نیوین ممالک (سویڈن، ڈنمارک، ناروے):ان ممالک میں بلدیاتی ادارے قومی بجٹ کا تقریباً 60 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ سویڈن میں Local Government Act 1991 کے تحت مقامی حکومتوں کو تعلیم، صحت، سماجی بہبود اور روزگار کے تمام معاملات میں مکمل اختیار حاصل ہے۔ مقامی ٹیکس، شفاف نظام اور عوامی مشاورت ان کے نظام کی بنیاد ہیں، جس سے ریاست اور عوام کا باہمی اعتماد مضبوط ہوا ہے۔بھارت:بھارت میں 1992ء میں 73ویں اور 74ویں آئینی ترامیم کے ذریعے پنچایتی راج (دیہی حکومت) اور اربن لوکل باڈیز (شہری حکومتیں) کو آئینی حیثیت دی گئی۔ ان ترامیم کے تحت گاؤں، تحصیل اور ضلع کی سطح پر منتخب نمائندے عوامی مسائل کے حل میں حصہ لیتے ہیں۔ آج بھارت میں 250,000 سے زائد پنچایتیں موجود ہیں، جن میں خواتین، مزدور اور کسانوں کے لیے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔ یہ نظام عوامی شمولیت، شفافیت اور جواب دہی کی بہترین مثال ہے۔
ترکی:ترکی میں 2004ء کے Municipal Law No. 5216 اور Local Administration Reformکے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور مالی خودمختاری دی گئی۔ ہر شہر کا اپنا میئر اور کونسل ہے، جو مقامی ترقیاتی منصوبوں، ٹرانسپورٹ، صفائی، تعلیم اور صحت کے منصوبے براہ راست چلاتی ہے۔ اس نظام نے ترکی کے شہری ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کیا۔
انڈونیشیا:2001ء میں انڈونیشیا نے Decentralization Law No. 22/1999 نافذ کیا، جس کے تحت 500 سے زائد ضلع اور شہر کی حکومتوں کو مکمل انتظامی و مالی خودمختاری دی گئی۔ اس اصلاح نے ملک کے ترقیاتی ڈھانچے کو نچلی سطح پر مضبوط کیا اور شفافیت میں اضافہ کیا۔یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ جب عوام کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے، تو ریاست مضبوط ہوتی ہے، کرپشن کم ہوتی ہے اور ترقی تیز رفتار ہو جاتی ہے۔پاکستان میں بلدیاتی نظام کی تاریخ اور ارتقاءپاکستان میں بلدیاتی نظام کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہوا، مگر یہ کبھی تسلسل سے قائم نہ رہ سکا۔ مختلف ادوار میں فوجی حکمرانوں نے اسے فعال بنایا جبکہ جمہوری ادوار میں عموماً اسے کمزور یا غیر فعال کر دیا گیا۔
ایوب خان کا بی ڈی سسٹم (Basic Democracies Order 1959):
ایوب خان نے 1959ء میں Basic Democracies System متعارف کرایا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم بلدیاتی نظام تھا، جس کے ذریعے مقامی نمائندوں کو ترقیاتی کاموں کا اختیار دیا گیا۔ اگرچہ اس نظام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن اس کے ذریعے تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے تیزی سے آگے بڑھے۔
جنرل ضیاء الحق کا نظام (Local Government Ordinance 1979):
1979ء میں ضیاء الحق نے Local Government Ordinance کے تحت بلدیاتی اداروں کو بحال کیا۔ یونین، تحصیل اور ضلع کونسلوں کے انتخابات باقاعدگی سے ہوئے، جس سے مقامی ترقیاتی منصوبوں میں عوامی شرکت بڑھی۔ اگرچہ یہ نظام فوجی حکومت کے زیر سایہ تھا، مگر عوامی سطح پر اس کے مثبت نتائج دیکھے گئے۔جنرل پرویز مشرف کا نظام (Devolution of Power Plan 2001):
2001ء میں مشرف حکومت Devolution of Power Plan نافذ کیا، جسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مؤثر اور فعال بلدیاتی نظام سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت ناظمین، نائب ناظمین، تحصیل ناظمین، ضلع ناظمین، لیڈی کونسلرز، یوتھ نمائندے اور لیبر کونسلرز عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتے تھے۔
ضلعی حکومتیں مالی و انتظامی لحاظ سے خودمختار تھیں۔ پولیس، ڈپٹی کمشنر اور ضلعی افسران بلدیاتی نمائندوں کے سامنے جواب دہ تھے۔صلح صفائی کونسلوں کے قیام سے عدالتوں اور تھانوں کا بوجھ کم ہوا اور عوامی شکایات مقامی سطح پر حل ہوئیں۔ یہی وہ دور تھا جب حقیقی معنوں میں اقتدار عوام کے قریب پہنچا۔
سیاستدانوں کی عدم دلچسپی اور نظام کی کمزوریپاکستان میں موروثی سیاست نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ جاگیردار، وڈیرے اور سیاسی خاندان عام شہری کو قیادت میں آتا نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ اس سے ان کی اجارہ داری متاثر ہوتی ہے۔بلدیاتی نظام میں چونکہ ایک عام شہری کونسلر یا ناظم بن سکتا ہے، اس لیے روایتی سیاستدان اس نظام کو پسند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی حکومت کے دوران بلدیاتی ادارے یا تو تحلیل کر دیے گئے یا ان کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔اس رویے نے نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا بلکہ عوامی مسائل کو بھی بڑھایا۔بلدیاتی نظام کے معاشی و سماجی فوائد

  1. مقامی مسائل کا فوری حل:
    گلی، محلوں، یونین کونسل اور تحصیل کی سطح پر عوامی نمائندے اپنے علاقے کے مسائل بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور فوری حل کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
  2. ٹیکس وصولی میں شفافیت:
    جب مقامی ادارے خود ٹیکس جمع کر کے اپنے منصوبے بنائیں گے تو کرپشن کم ہوگی اور عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ شہری دیکھیں گے کہ ان کے ٹیکس انہی کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو رہے ہیں۔
  3. عدالتی و انتظامی بوجھ میں کمی:
    صلح صفائی کونسلوں اور ثالثی اداروں کے ذریعے گھریلو، زمین یا کاروباری تنازعات مقامی سطح پر حل ہو سکتے ہیں، جس سے عدالتوں اور تھانوں پر دباؤ کم ہوتا ہے۔
  4. کرپشن پر قابو:
    اختیارات کی مرکزیت ٹوٹنے سے شفافیت بڑھتی ہے اور بدعنوانی کے امکانات گھٹ جاتے ہیں۔ عوام براہِ راست اپنے نمائندوں سے سوال کر سکتے ہیں۔
  5. قومی معیشت پر مثبت اثر:
    جب ہر یونین کونسل اپنا ریونیو خود جمع کرے اور ترقیاتی منصوبے خود چلائے تو قومی خزانے پر بوجھ کم ہوتا ہے۔ ملک قرضوں سے نجات کی سمت بڑھتا ہے۔پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور استحکام اسی وقت ممکن ہے جب عوام کو اقتدار میں حقیقی شمولیت دی جائے۔موثر و بااختیار بلدیاتی نظام عوامی خدمت کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ نظام کرپشن کے خاتمے، شفاف حکمرانی، معاشی خودمختاری اور عوامی اعتماد کے قیام کی ضمانت ہے۔ملک کی خوشحالی، ترقی اور امن صرف عوام کی اقتدار میں شمولیت سے ممکن ہے، اور وہ شمولیت مضبوط بلدیاتی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔طاقتور بلدیاتی نظام، طاقتور عوام اور طاقتور عوام ہی ایک مضبوط ریاست کی ضمانت ہیں۔
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے