خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن نے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کو شفافیت کی مسلسل ناکامیوں پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب شہریوں کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنے اور کمیشن کی سماعتوں میں عدم شرکت کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا۔ کمیشن کا مقصد صوبائی محکمہ صحت میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانا ہے۔
پشاور میں محکمہ صحت کے خلاف شہریوں کی جانب سے کل تیرہ شکایات دائر کی گئیں، جن میں الزام عائد کیا گیا کہ ضروری معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا گیا۔ انفارمیشن کمیشن نے باضابطہ طور پر ان شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے متعلقہ افسر کو دستاویزات کے ساتھ سماعت میں طلب کیا، تاہم محکمہ کی جانب سے کوئی نمائندہ پیش نہیں ہوا۔ اس پر کمیشن کو مزید سخت کارروائی کرنا پڑی۔
کمیشن کے مطابق محکمہ صحت سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہر کوشش کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جب سرکاری افسر اسغر خان آفریدی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے عہدے سے لا تعلقی ظاہر کی، جبکہ ایک اور افسر نعیم نے بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے صرف الزام تراشی کی اور کوئی حل پیش نہ کیا۔ کمیشن نے اس طرز عمل کو غیر پیشہ ورانہ اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔
کمیشن نے کے پی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کی دفعات 26(3) اور 28(1)(a) کے تحت اپنی قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست ڈائریکٹر جنرل صحت کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔ اب ڈی جی صحت کو سات دن میں تحریری وضاحت دینا ہوگی کہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کیوں نہ شروع کی جائے اور محکمے میں تعاون کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا۔
انفارمیشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ اس طرح کے رویے سے عوام کا اعتماد متاثر ہوتا ہے اور شفافیت کے قوانین کی عملداری کمزور پڑتی ہے۔ اس فیصلے کے نتائج آئندہ ایسے معاملات میں مثال بن سکتے ہیں۔
