اسلامی کھیلوں میں کارکردگی اور انتظامی سوالات

newsdesk
4 Min Read
ارشد ندیم کی سنہری کارکردگی کے ساتھ کھیلوں میں انتخاب اور انعامات کے معاملات پر محمد اشتیاق کیانی کے سوالات اور اصلاحاتی مطالبات۔

ارشد ندیم نے اسلامی کھیلوں میں اپنی قابل ذکر کوشش میں ۸۳ میٹر تھرو کر کے سنہری تمغہ جیتا، تاہم مقابلوں کے انتخابی اور منتظماتی فیصلوں کے تناظر میں سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ محمد اشتیاق کیانی کی تحقیق کے مطابق اگر کوئی کھلاڑی ۸۵ میٹر تھرو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوتا اور شریک ہوتا تو ارشد ندیم کے نمبر میں واضح تبدیلی آسکتی تھی، جو کھیلوں کے منصفانہ تقاضوں پر بھی شبہات پیدا کرتا ہے۔محمد اشتیاق کیانی کا مؤقف ہے کہ پاکستانی کھیل کے معاملات میں نمایاں بدانتظامی موجود ہے اور یہ مسائل تحقیق کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ فیڈریشنوں کے اختیارات اور ذمہ داریوں کا واضح تعین ضروری ہے تاکہ ایسے شکوک دور ہوں کہ کون کس کو کس بنیاد پر بھیجتا ہے اور کون سی باقاعدہ ٹرائلز کے بعد کھلاڑیوں کا انتخاب کرتا ہے۔ایک حساس نکتہ سلمان بٹ کے خلاف دائمی پابندی کے بعد بھی ان کے نام کے حوالہ سے اٹھائے گئے سوالات ہیں کہ سلمان بٹ نے ارشد ندیم اور یاسر سلطان کے کوچ کے طور پر کس نے تقرر کروایا اور انہیں کس نے بیرون ملک ٹریننگ یا مقابلوں کے لیے بھیجا۔ یہ سوالات پاکستان کے کھیلوں کے نظام میں شفافیت کے فقدان کی عکاسی کرتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر پاکستانی کھیل پر پڑتا ہے۔ہائی جمپ کے حوالے سے بھی ایک ایسی مثال سامنے آئی جسے فیڈریشن نے مسترد کیا؛ فیڈریشن کا موقف تھا کہ وہ کھلاڑی خود نہیں بھیجیں، جبکہ ذرائع کہیں اور بتا رہے تھے کہ وہ ٹرائلز میں شرکت بھی نہیں کر رہا تھا مگر پھر اسے منتخب کر کے بھیج دیا گیا۔ اس طرح کے فیصلے پاکستانی کھیل کے ان بنیادی اصولوں کو متاثر کرتے ہیں جو ہر کھلاڑی کے حق کو محفوظ رکھتے ہیں۔اسکواش کے کھلاڑی سہیل نے میڈل جیتا اور پنجاب کی طرف سے اسے پچاس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا، مگر دوسری جانب دانش اتلج جیسے کھلاڑی جو قومی شان کے لیے ملک کا پرچم بلند کرتے ہیں، کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں ایک روپیہ تک نہیں دیا گیا۔ یہ انعامی عدم مساوات اور شفاف تقسیم کے سوالوں کو جنم دیتی ہے جن کا ذکر محمد اشتیاق کیانی نے واضح انداز میں کیا ہے۔مزید برآں، تینتیسویں قومی کھیلوں سے سائیکلنگ کو نکال دیا جانا بھی تشویشناک قدم ہے، خاص طور پر جب یہی کھیل بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کے لیے تمغے لاتا ہے۔ اس طرح کے فیصلے پاکستانی کھیل کی ترقی اور نوجوان کھلاڑیوں کے حوصلے پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔محمد اشتیاق کیانی کا کہنا ہے کہ اگر ان مسائل کو فوراً حل نہ کیا گیا اور فیڈریشنوں کو مناسب عزت و اختیار نہ دیا گیا تو ملکی سطح پر کھیلوں کی ساکھ متاثر ہوگی۔ ان کے مطابق ہر ذمہ دار کو دی گئی ذمےداری کے مطابق کام کرنا چاہیے اور کھیلوں کی بہتری کے لیے سب کو مل کر ایک مربوط پلیٹ فارم پر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستانی کھیل کے مستقبل کو درکار استحکام مل سکے۔یہ معاملات نہ صرف فرد کے صلے یا انعامات تک محدود ہیں بلکہ پوری پالیسی اور انتخابی نظام کی شفافیت سے جڑے ہیں، جو بالآخر قومی شہرت اور کھلاڑیوں کے مفاد کو متاثر کرتے ہیں۔ پاکستانی کھیل کی بحالی کے لیے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا اور عملی اصلاحات لاگو کرنا لازم ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے