اسلامی امارت افغانستان کے چار سال پورے ہونے پر انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے سنٹر فار افغانستان، مڈل ایسٹ اور افریقہ (سی ایم ای اے) میں ایک اہم ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس ویبینار میں افغانستان میں طالبان حکومت کی چار سالہ حکمرانی، داخلی تبدیلیاں اور عالمی سطح پر رابطوں کا جائزہ لیا گیا۔ شرکا نے افغانستان کے حالاتِ حاضرہ، چیلنجز، اور پڑوسی ممالک سے تعلقات پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی۔
ویبینار کے آغاز میں سینئر سفارت کار خالد محمود نے کہا کہ طالبان کی واپسی کو چار سال گزرنے کے بعد افغانستان میں حکومتی استحکام اور خارجی سطح پر رابطے بڑھے ہیں، جن میں روس کی علامتی سطح پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔ تاہم عالمی سطح پر وسیع تر تسلیم ابھی رکاوٹوں کا شکار ہے، خاص طور پر انسانی حقوق، شمولیت اور دہشت گردی کے مسائل کے باعث۔ انہوں نے کہا کہ اندرونی طور پر طالبان نے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھی ہے، مگر داعش (آئی ایس کے پی)، القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی موجودگی اب بھی سنجیدہ خدشہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سرحد پار حملوں جیسے مسائل موجود ہیں، مگر اسی کے ساتھ سفارتی پیش رفت اور مشترکہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی بحالی جیسے مثبت اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں تعاون اور روابط کے لیے عملی سفارت کاری ناگزیر ہے۔
ڈائریکٹر سی ایم ای اے آمنہ خان نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں طالبان کی حکومت نے استحکام، کرپشن میں کمی، پوست کی کاشت پر پابندی اور سفارتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے، مگر انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور جامعیت جیسے معاملات میں ان کا ریکارڈ ناقابل تسلی بخش ہے۔ دوحہ معاہدے کے وعدوں پر عمل نہ ہونے سے یہ پیش رفت ماند پڑ گئی ہے اور طالبان حکومت کی کارکردگی تاحال عبوری اور مسائل کا شکار ہے۔
افغانستان کے پاکستان میں سفیر سردار احمد شکیب نے کہا کہ اسلامی امارت کے تحت ملک میں عمومی سیکیورٹی کو یقینی بنایا گیا، منشیات کی کاشت ختم کی گئی اور انصاف کا نظام پورے ملک میں قائم ہوا۔ انہوں نے ملک کو معاشی خود انحصاری کی طرف بڑھنے، زرعی، توانائی اور انفراسٹرکچر جیسے بڑے منصوبے شروع کرنے اور یتیموں، بیواؤں اور معذور افراد کے لیے سماجی پروگرام شروع کرنے پر روشنی ڈالی۔ خارجہ تعلقات کے ضمن میں انہوں نے کہا کہ افغانستان نے 100 سے زائد ممالک سے رابطے مضبوط کیے ہیں، جبکہ روس کی جانب سے تسلیم کیے جانے کو بین الاقوامی انضمام کی راہ میں اہم سنگِ میل قرار دیا۔
پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے نشاندہی کی کہ چار سال گزرنے کے باوجود پابندیاں، عالمی سطح پر تسلیم نہ کیا جانا اور خواتین کے حقوق، تعلیم اور دہشت گردی کے مسائل اہم چیلنجز بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں سخت گیر عناصر اور معتدل رہنماؤں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں، اور ملک کو اصلاحات کے ذریعے انضمام یا پھر تنہائی کے درمیان انتخاب درپیش ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دہشت گردی بڑی رکاوٹ ہے، جبکہ افغان عوام کی امنگوں کے مطابق آئینی اصلاحات ضروری ہیں۔
کونسی انسٹیٹیوٹ کے ایڈم وائن اسٹائن نے کہا کہ امریکہ اب بھی افغانستان کا بڑا مالی معاون ہے، مگر واشنگٹن میں افغانستان اب پالیسی کی ترجیح نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور افغان عوام نے امداد میں کٹوتی کے باوجود مضبوطی دکھائی ہے، تاہم طالبان کو ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری سے تعاون کے لیے اصلاحات اور خطے میں انضمام کا راستہ اختیار کریں۔ امریکہ کی افغان پالیسی کو انہوں نے غیر مربوط اور وقتی قرار دیا، جبکہ دوحہ عمل کو تقریباً ختم شدہ بتایا۔
رومانیہ کے سیاسی ماہر ڈاکٹر فلاویوس کبا ماریا نے کہا کہ طالبان کی چار سالہ حکومت کے باوجود افغانستان عالمی سطح پر بڑی حد تک تنہائی کا شکار ہے، حالانکہ علاقائی سطح پر روابط اور روس سے تسلیم ملنے میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ سیکیورٹی بہتر ہوئی اور منشیات کی تجارت میں کمی آئی ہے، مگر انسانی بحران برقرار ہے اور پناہ گزینوں کی واپسی جاری ہے۔ یورپی یونین اب بھی یوکرین پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور افغانستان کی مکمل تسلیم کے بغیر صرف امداد اور پناہ گزینوں پر تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو افغانستان سے متعلق زیادہ حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
سیمینار کے اختتام پر خالد محمود نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک اہم مرحلے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مشکلات باقی ہیں، تاہم طالبان حکومت کے علاقائی اور بین الاقوامی روابط اس امر کا اعتراف ہیں کہ تعاون ناگزیر ہے۔ ملک میں سب کو شامل کرنے والی پالیسیوں اور عالمی تقاضوں کو ماننا افغانستان کے استحکام، ترقی اور بین الاقوامی سسٹم میں انضمام کے لیے ضروری ہے۔
