ادارہ فروغِ قومی زبان اسلام آباد میں کمیٹی برائے حقوقِ انسانی پاکستان کے زیرِ اہتمام منعقدہ اقبال کانفرنس میں علامہ اقبال کی فکری اور ادبی میراث کو جدید تناظر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پروگرام کی نظامت معروف محقق و دانشور ڈاکٹر امجد کلو نے کی جب کہ اس میں جامعات کے اساتذہ، محققین، سماجی شخصیات اور بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ یقیقناً اقبال کانفرنس نے شرکاء کو علامہ اقبال کے عالمی پیغام کی اہمیت سمجھانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔تقریب میں شریک معزز مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک، چیرمین کمیٹی جمشید حسین، محمد علی (صدر مشعل)، ڈاکٹر سمینہ اعوان، عبدالباسط، عظیم کشمیری، ڈاکٹر ساجد محمد اعوان، حماد عباسی ایڈووکیٹ، ابرار الحق، معروف شاعر کاشف کمال، نامور صحافی فرحت صاحبہ اور صدر مراد علی شامل تھے۔ نوجوان ماڈل قومی اسمبلی کے صدر محمد سعد اور ان کی ٹیم نے بھی پروگرام میں بھرپور شرکت کی اور خیالات کا اظہار کیا۔پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال کا پیغام کسی ایک قوم تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اقبال نے مشرق و مغرب کے درمیان فکری ربط پیدا کیا اور انسان کو اس کے اصل مقام اور زندگی کے مقصد سے آگاہ کیا۔ یہی سوچ اقبال کانفرنس کے مرکزی محور میں نمایاں رہی۔چیرمین کمیٹی جمشید حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقبال نے محکوم اقوام میں خودی اور آزادی کی روح پھونکی اور ان کی فکر آج کے نوجوانوں کے لیے امید، عزم اور کردار سازی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کا فلسفہ امن، برداشت اور باہمی احترام پر مبنی ہے اور اس پیغام کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اقبال کانفرنس میں دیگر مقررین نے بھی اسی تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کی سوچ آج کے عالمی حالات میں اتحاد، انصاف اور احترامِ آدمیت کا درس دیتی ہے۔تقریب کے اختتام پر مہمانانِ خاص کو یادگاری شیلڈز پیش کیے گئے اور طلبہ و طالبات نے کلامِ اقبال پر شعری تقاریر اور مکالمے پیش کیے جنھیں سامعین نے سراہا۔ معروف بانسری نواز افضال نے بانسری پر کلامِ اقبال پیش کر کے روح پرور ماحول پیدا کیا، جسے حاضرین نے داد دے کر سراہا۔ اس پورے پروگرام میں اقبال کانفرنس کا موضوع ہر کلام اور گفتگو میں بارہا سامنے آتا رہا اور شرکاء نے اس فکر کی عصری اہمیت پر اتفاق کیا۔علامہ اقبال کی وہ مشہور سخن جو اس موقع پر بھی گونجی، یوں ہےخودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
