اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک اعلی سطحی سیمینار میں ماہرین، سفارت کاروں اور پالیسی سازوں نے چین کی ثالثی سفارتکاری اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار میڈی ایشن (IOMed) کے عالمی سطح پر تنازعات کے حل میں کردار پر روشنی ڈالی۔ شرکاء نے IOMed کو عالمی جنوب کے لیے ایک اہم اور فائدہ مند اقدام قرار دیا اور اسے دنیا بھر کے مسئلوں کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے ایک نئی امید قرار دیا۔
تقریب کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ کے صدر، سفیر جوہر سلیم نے چین کی ثالثی کے میدان میں کوششوں کو سراہا اور کہا کہ IOMed عالمی سطح پر حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے روایتی اداروں جیسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامیوں کی مثالیں دیتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو سمیت دیگر چینی اقدامات کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
صدر پاکستان کے ترجمان مرتضیٰ سولنگی نے چین اور جنوبی ایشیائی اقدار میں مفاہمت اور ثالثی کے روایتی رجحان پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہانگ کانگ میں قائم ہونے والے IOMed میں پاکستان سمیت 33 بانی اراکین شامل ہیں اور یہ ادارہ ریاستی اور تجارتی دونوں طرح کے بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ثالثی کے فوائد میں کم اخراجات، تیز فیصلے اور حساس معاملات کی رازداری شامل ہے، جو پاکستان کے لیے فائدہ مند ہیں۔
چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن، شی یوآن چیانگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے IOMed کنونشن پر دستخط کرنے سے دنیا میں پہلی مرتبہ ایک بین الحکومتی ادارہ قائم ہوا ہے جو صرف ثالثی کے لیے مخصوص ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے اور عالمی سطح پر امن و انصاف کے قیام میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے طاقت کی سیاست کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر، احمر بلال صوفی نے کہا کہ چین واحد مستقل رکن ہے جس نے مسلسل ثالثی میں کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق IOMed ایسا پہلا ادارہ ہے جو ریاستوں کے درمیان ثالثی کے لیے مخصوص ہے اور علاقائی تنازعات کے حل کے لیے پاکستانی پالیسی سازوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، خصوصاً ان تنازعات کے لیے جو پانی، تجارت یا راہداری سے متعلق ہیں۔
لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی سیکرٹری رافت عنم بٹ نے کہا کہ جیو پولیٹکس کے باعث روایتی عدالتی نظام کمزور ہو رہا ہے اور ثالثی ہی کامیابی کی راہ ہے۔ انہوں نے IOMed کو عالمی جنوب کو فیصلے بنانے والے (rule-shapers) کے طور پر ابھرنے کا موقع قرار دیا اور سفارش کی کہ ادارے کی ساکھ کے لیے آغاز میں تجارتی مقدمات کو ترجیح دی جائے۔
گلوبل تھنک ٹینک نیٹ ورک کے صدر اور چین کی سپریم کورٹ کے بین الاقوامی ماہر کمیٹی کے رکن حمید شریف نے کہا کہ IOMed ایک عالمی رجحان ہے جو مخاصمانہ قانونی چارہ جوئی سے ہمدر دینے اور رضامندی کی ثالثی کی جانب انتقال کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں مغربی ثالثی نظام کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ IOMed متبادل اور قابل قبول حل پیش کرتا ہے۔
بین الاقوامی اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بلال زبیر نے کہا کہ لبرل انٹرنیشنل آرڈر زوال پزیر ہے، اس لیے چین کی جانب سے ثالثی اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اقدامات نہایت اہم ہیں۔ ان کے مطابق، IOMed ترقی پذیر دنیا کے لیے وقت کی ضرورت اور فوری حل کا ذریعہ ہے۔
سوال و جواب کے سیشن میں شرکاء نے ثالثی کے فیصلوں پر عملدرآمد، علاقائی اداروں کے کردار اور پاکستان کی جانب سے دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے IOMed کے استعمال پر سوالات اٹھائے، جس پر ماہرین نے اعتماد سازی، غیر جانبداری اور ترقیاتی اہداف سے ہم آہنگی کو ادارے کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط قرار دیا۔
اختتام پر سفیر جوہر سلیم نے سیمینار کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ IOMed صرف چین کا نہیں بلکہ عالمی جنوب کے لیے بالخصوص ایک اجتماعی فائدہ ہے، اور IRS نئے بین الاقوامی حکمرانی کے ڈھانچوں پر مکالمے کو فروغ دیتا رہے گا۔
