اسلام آباد میں ایک گول میز گفتگومیں ماحولیات اور پائیداری کے ماہرین نے کہا کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے موسمی انتہا پسند رجحانات کے تناظر میں موثر حکمتِ عملیاں جلد از جلد نافذ کرنا ضروری ہیں اور <>سیلاب مزاحمت> کے لیے مربوط اقدامات ناگزیر ہیں۔ ادارہ برائے پالیسی مطالعات، اسلام آباد کی زیرِاہتمام منعقدہ نشست میں مختلف ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں، سیلاب، درجۂ حرارت میں اضافہ اور پانی کے معیار کے خراب ہونے کے سنگین اثرات پر تبادلۂ خیال کیا۔
ڈاکٹر پرویز امیر نے بتایا کہ پاکستان میں موسمی انتہائیں محض سیلاب تک محدود نہیں رہیں بلکہ سردیوں کا زوال اور درجۂ حرارت میں اضافہ غذائی سلامتی، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ جنگلات کا احاطہ جو ایک فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے اسے کم از کم چالیس فیصد تک بڑھانے کی پالیسی ترجیح ہونی چاہیے اور مون سون کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بند بنانا اور صحرائی علاقوں میں پانی کی بَہاؤ منتقل کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
ڈاکٹر غلام رسول نے موسمیاتی تبدیلی کے باعث حالیہ دہائیوں میں ہیٹ ویو اور سیلابوں کے تیزی سے بڑھنے کی نشان دہی کی اور شہروں میں افقی توسیع کی بجائے عمودی منصوبہ بندی، قدرتی ندی نالوں کی صفائی اور رہائشی منصوبوں میں موسمی پیشگوئیوں کا شامل کرنا لازم قرار دیا۔ اس اندازِ منصوبہ بندی سے شہروں کی صلاحیت میں اضافہ ممکن ہوگا۔
سید اکرام الحق نے زور دیا کہ انسانی وسائل کو عالمی بہتر عمل کے مطابق ترتیب دینا ہوگا اور مقامی حکمرانی کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ خطرات کے وقت اولین ردِعمل دینے والے بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاحتی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کو آفات کے دوران دوہری استعمال کے طور پر دیکھا جائے اور ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کو موسمیاتی آفت حکمتِ عملی میں شامل کیا جائے تاکہ بروقت اور دقیق فیصلے ممکن ہوں۔
الطاف شیر نے شمالی علاقوں میں حالیہ گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دیو ہیکل پتھرں اور ملبے نے کئی بستیاں تباہ کیں، جس نے واضح کیا کہ مقامی سطح پر ریسپانس اور بچاؤ صلاحیتیں ناگزیر ہیں۔ یاسر ریاض نے کہا کہ جو سیلاب پہلے سینچری ایونٹس تصور کیے جاتے تھے وہ اب زیادہ بار بار وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور ان کی سرکوبی میں مقامی صلاحیت کی کمی ایک بڑا سبب ہے، اس لیے <>سیلاب مزاحمت> کے لیے فرد، کمیونٹی اور ادارہ جاتی سطح پر مضبوطی لانی ہوگی۔
ڈاکٹر سید طاہر حجازی نے معاشی نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی منصوبے نہ صرف نقصان سے بچائیں بلکہ سیلاب کے فوائد کو بروئے کار لائیں۔ انہوں نے مچھلی پروری اور دریا کے بہاؤ پر مبنی چھوٹی پن بجلی کو ایسے مواقع قرار دیا جو مقامی معیشتوں کو مستحکم کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عمران ہاشمی نے پانی کے معیار کے بگاڑ کے صحت پر پڑنے والے اثرات کی نشاندہی کی اور باریک پلاسٹک کے ذرات اور جراثیم سے پیدا ہونے والے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فضلہ اور سیوریج کے حل کے لیے بیرونی معاونت پر مکمل انحصار کی بجائے مقامی، بومی حل تلاش کرنے چاہئیں۔
ڈاکٹر مجتبیٰ حسن نے کہا کہ جدید سائنسی تحقیق اکثر آفتی پالیسیوں اور ابتدائی انتباہی نظاموں میں شامل نہیں ہوتی اور ضروری ہے کہ فضائیاتی اور موسمیاتی سائنس کو قومی تیاری حکمتِ عملیاں میں ضم کیا جائے تاکہ انتباہی نظام حقیقی وقت کی معلومات پر مبنی ہوں۔
مرزا حامد حسن نے نشاندہی کی کہ پاکستان اکثر بیرونی ملکوں کے انتباہوں پر منحصر رہتا ہے اور اس میں بے ترتیبی کا خطرہ موجود ہے؛ انہوں نے بھارت کی غیر اعلانیہ آبی ریلیزز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل دریاؤں کے پانی کے معاہدوں کے تقاضوں کے خلاف تھا اور ملک کو پیش گوئی اور انتظام میں خود کفیل بننے کی ضرورت ہے۔
خالد رحمان نے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان میں سیلابی خطرات موسمیاتی تبدیلی اور انسانی عوامل دونوں سے پیدا ہوتے ہیں اس لیے مربوط حل، پالیسی نفاذ، قومی پانی ذخیرہ صلاحیت میں اضافہ، پائیدار پانی کے انتظام، مضبوط ابتدائی انتباہی نظام اور مقامی صلاحیت سازی کو یکجا کیا جائے تاکہ قلیل، درمیانی اور طویل مدتی حکمتِ عملیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رہیں اور عوام و وسائل کی حفاظت ممکن بن سکے۔
