مار گئی مہنگائی
تحریر: ظہیر احمد اعوان
مہنگائی کسی بھی معاشرے کے اعصاب پر وہ ضرب لگاتی ہے جو جنگ یا قدرتی آفت بھی نہیں لگا پاتی۔جب گھر کا چولہا ٹھنڈا ہو جائے، مزدور کی مزدوری ختم ہو جائے، اور سفید پوش کی عزتِ نفس بھوک کے سامنے ہار مان لے تو یہ کسی قوم کے زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔پاکستان میں اس وقت یہی صورتحال درپیش ہے۔آٹا، چینی، چاول، دالیں، سبزیاں، پٹرول، بجلی اور گیس ہر چیز کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول خواب بنتا جا رہا ہے۔
ریاست کی اولین ترجیح اپنے عوام کو سہولت فراہم کرنا اور روزمرہ کی ضروریات ان کی پہنچ میں رکھنا ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ریاست اور عوام کے درمیان یہ رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن بےروزگاری اور مہنگائی نے غریب اور سفید پوش طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔دیہاڑی دار مزدور، رکشہ ڈرائیور، چھابڑی فروش، ریڑھی بان، پرائیویٹ نوکری پیشہ افراد — سب کے لیے زندگی ایک مسلسل جدوجہد بن چکی ہے۔
ایک طرف روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور دوسری طرف مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
آٹا، دالیں، خوردنی تیل، سبزیاں، پھل، گوشت، پٹرول، بجلی اور گیس — ہر شے کی قیمت بڑھنے سے عام آدمی ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے۔
ان معاشی حالات کے باعث گھریلو جھگڑے، ذہنی دباؤ، خودکشیاں اور جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومت کا غیر فعال کردارافسوس کا مقام ہے کہ حکومت کی کارکردگی صرف اعلانات، بیانات اور دعوؤں تک محدود ہے۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مجسٹریٹ سب سوشل میڈیا پر مہنگائی کے خلاف “تصویری کارروائیاں” دکھا کر عوام کو تسلیاں دے رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پرائس کنٹرول کا نظام سرے سے مؤثر نہیں۔
مارکیٹ مافیا من مانی کر رہا ہے، ذخیرہ اندوزی عام ہے، اور حکومت کے پاس کوئی پائیدار میکانزم موجود نہیں جس کے ذریعے قیمتوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ آئینی و اخلاقی ذمہ داری آئین پاکستان ہر شہری کو بنیادی ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، رہائش، لباس، علاج اور تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔لیکن یہ ضمانت صرف کتابوں اور نعروں تک محدود ہے۔
حکومت کا کردار تماشائی بن کر رہ گیا ہے، جبکہ عوام بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
اگر یہی حالات رہے اور مہنگائی و بےروزگاری پر قابو نہ پایا گیا تو خدانخواستہ عوامی بےچینی شدید صورت اختیار کر سکتی ہے۔
دنیا کے کامیاب ماڈلزدنیا کے کئی ممالک نے مہنگائی اور بےروزگاری پر قابو پانے کے لیے مؤثر پالیسیوں کے ذریعے اپنی معیشتوں کو مستحکم کیا۔ان مثالوں سے پاکستان سیکھ سکتا ہے۔2000 کی دہائی کے آغاز میں ترکی کو شدید مہنگائی اور بےروزگاری کا سامنا تھا۔حکومت نے مالیاتی نظم و ضبط (Fiscal Discipline)زرعی سبسڈی میں شفافیت اور صنعتی پیداوار میں اضافہ پر توجہ دی۔مرکزی بینک کو خودمختاری دی گئی تاکہ وہ شرحِ سود کو سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر کنٹرول کر سکے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ چند برسوں میں افراطِ زر میں کمی آئی، روزگار کے مواقع بڑھے اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوا۔چین نے روزگار پر مبنی ترقیاتی ماڈل اختیار کیا۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو سستے قرضے دیے گئے تاکہ لوگ اپنا روزگار خود پیدا کر سکیں۔
حکومت نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر سبسڈی برقرار رکھی اور کسانوں کو براہِ راست مالی امداد دی۔یہی وجہ ہے کہ وہاں غربت کی شرح تاریخی حد تک کم ہوئی۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش چند دہائیوں میں معیشتی لحاظ سے مستحکم ہوا۔اس نے گھریلو صنعتوں، خواتین کے روزگار اور ٹیکس اصلاحات پر کام کیا۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے درآمدی اشیاء پر ریگولیشن اور قیمتوں کی نگرانی کے جدید ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرائے گئے۔یہی ماڈل پاکستان کے لیے بھی رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔
سنگاپور نے افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کے لیے قومی اجرت پالیسی (National Wage Policy) بنائی۔
اس پالیسی کے تحت تنخواہوں میں اضافہ ہمیشہ ملکی پیداوار اور افراطِ زر کی شرح کے مطابق کیا جاتا ہے۔یوں وہاں قیمتیں مستحکم اور عوامی قوتِ خرید محفوظ رہی۔
بھارت نے ڈیجیٹل پرائس مانیٹرنگ اور پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (PDS)کے ذریعے مہنگائی پر کافی حد تک قابو پایا۔
غریبوں کو راشن کارڈ، کسانوں کو سبسڈی، اور کاروباروں کو آسان ٹیکس پالیسی دے کر حکومت نے عوامی اعتماد بحال کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ محض بیانات نہیں، عملی اقدامات کیے جائیں۔مہنگائی اور بےروزگاری کے سدباب کے لیے چند بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں:
- زرعی شعبے میں سرمایہ کاریتاکہ گندم، چاول، سبزیوں اور دالوں کی پیداوار میں اضافہ ہو۔
- قیمتوں کا جدید نگرانی نظام مارکیٹ کی ریئل ٹائم معلومات کے لیے ڈیجیٹل ایپلیکیشنز تیار کی جائیں۔
- ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی سپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔
- روزگار کے مواقع پیدا کرنانوجوانوں کے لیے ہنر مندی اور چھوٹے قرضوں کے پروگرام شروع کیے جائیں۔
- توانائی کے نرخوں میں توازن بجلی اور گیس کے بلوں پر عوام دوست پالیسی بنائی جائے۔
- شرحِ سود میں تدریجی کمی تاکہ کاروباروں کی لاگت کم ہو اور سرمایہ کاری بڑھے۔
- شفاف سبسڈی نظام صرف ضرورت مند طبقے تک سبسڈی پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل رجسٹری بنائی جائے۔
عوامی شعور اور کردارمہنگائی کے خاتمے کے لیے صرف حکومت نہیں، عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، اور غیر ضروری درآمدات یہ سب مہنگائی میں اضافہ کرتے ہیں۔
اگر ہم اجتماعی شعور کے ساتھ ذمہ داری نبھائیں تو بہتری ممکن ہے۔
پاکستان ایک زرعی، محنتی اور وسائل سے بھرپور ملک ہے۔
اگر نیت، نظم و ضبط، شفافیت اور عوامی مفاد کو ترجیح دی جائے تو مہنگائی اور بےروزگاری پر قابو پانا ناممکن نہیں۔ریاست کو اپنے شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی، کیونکہ قومیں بندوقوں سے نہیں، عوام کی خوشحالی سے مضبوط ہوتی ہیں۔اگر حکومت نے سنجیدگی، تسلسل اور عزم کے ساتھ معاشی اصلاحات پر عمل کیا تو یقیناً ایک دن آئے گا جب “مار گئی مہنگائی” ایک نعرہ نہیں، بلکہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
