وادی سندھ ڈیلٹا: موسمیاتی تبدیلی اور متنازعہ بیانیے

newsdesk
3 Min Read

اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک مذاکرے میں ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ سندھ ڈیلٹا کی بقا کے لیے تازہ پانی کا سمندر تک پہنچنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس سے مقامی افراد، زراعت، ماہی گیری اور سمندری ماحولیاتی نظام زندہ رہتے ہیں۔ اس موقع پر ماہر آبی وسائل و ماہر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر حمید جمالی نے زور دیا کہ پالیسی سازوں کو صرف تکنیکی حل پر انحصار کرنے کے بجائے دریاؤں کو زندہ ماحولیاتی نظام تصور کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر حمید جمالی نے ‘موسمیاتی تغیر کے ماحول میں متنازعہ بیانیے: سندھ ڈیلٹا کیس اسٹڈی’ کے موضوع پر خطاب میں بتایا کہ دنیا کے پانچویں بڑے ڈیلٹا اور پاکستان کے 97 فیصد مینگرووز کے گھر سندھ ڈیلٹا کو شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلٹا میں مینگرووز کا رقبہ 6 لاکھ ہیکٹر سے کم ہوکر ایک لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے، سمندری پانی 80 کلومیٹر اندر تک داخل ہوچکا ہے اور 80 فیصد سے زائد علاقہ نمکینیت کا شکار ہے، جس سے بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی اور سالانہ دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔

ڈاکٹر جمالی نے اپنی گفتگو میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ جہاں ایک طرف موسمیاتی تبدیلی کو خطے کی مشکلات کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، وہیں انتظامی کوتاہیاں، ناقص آبی نظم و نسق اور غیر منظم ترقی نے ان مسائل کو مزید بڑھایا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر ‘سمندر تک پانی کے بہاؤ کو ضیاع’ قرار دینے، بڑے ڈیموں پر بھروسہ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کو محض ایک مبہم مسئلہ بنانے جیسے تصورات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر جمالی نے مطالبہ کیا کہ کوٹری بیراج سے نیچے ماحولیاتی ضرورت کے مطابق پانی چھوڑا جائے، بیسن کی سطح پر موسمیاتی موافق حکمرانی اپنائی جائے اور مقامی برادریوں کو پانی کے انتظام میں مرکزی کردار دیا جائے۔ انہوں نے فرسودہ نہری نظام کی جگہ مربوط آبی انتظام (IWRM) نافذ کرنے اور مقامی ماحولیاتی علم کو سائنسی مہارتوں کے ساتھ پالیسیوں میں شامل کرنے پر زور دیا۔

انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر رضوان نذیر نے کہا کہ سندھ ڈیلٹا نہ صرف ایک اہم ماحولیاتی خطہ ہے بلکہ لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش بھی ہے، جو موسمیاتی تبدیلی، اپ اسٹریم واٹر مینجمنٹ اور سماجی و معاشی چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جس سے جامع اور سائنسی بنیادوں پر پالیسی اقدامات کی فوری ضرورت لاحق ہوگئی ہے۔

آخر میں پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر انجم رشید نے پالیسی اصلاحات پر زور دیا جن میں ماحولیاتی پائیداری، برادری کی شمولیت اور آئندہ کے موسمیاتی و انتظامی چیلنجوں کے خلاف مضبوط نظام قائم کرنے کو ترجیح دی جائے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے