صحت وزارت میں 6 ارب سے زائد مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں

newsdesk
4 Min Read

وزارت صحت میں 6 ارب روپے سے زائد مالی بے ضابطگیاں سامنے آگئیں

اسلام آباد: وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن میں گزشتہ تین سالوں کے دوران مالی بے ضابطگیوں اور غیر مجاز اخراجات کا انکشاف ہوا ہے، جن کی مجموعی مالیت 6 ارب روپے سے زائد ہے۔ قومی اسمبلی میں جمع کروائے گئے جواب کے مطابق یہ صورتحال وزارت کی مالی نگرانی اور احتساب کے نظام پر سنگین سوالات اٹھا رہی ہے۔ ایم این اے شیر افضل خان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزارت نے تفصیلی رپورٹ اور ضمیمہ پیش کیا، جس میں مختلف مالی بے قاعدگیاں، غیر منظور شدہ ادائیگیاں اور فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023-24 کی آڈٹ رپورٹ میں 11 بڑی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ غیر استعمال شدہ ترقیاتی فنڈز کی مد میں 4 ارب 3 کروڑ روپے واپس کر دیے گئے، جب کہ مالی سال کے آخر میں 1 ارب 77 کروڑ روپے منسلکہ اداروں کو منتقل کیے گئے، جسے بجٹ کی ہیرا پھیری قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نووارٹس فارما کو 7 کروڑ 17 لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگی، اور کمپیوٹر اسٹیشنری وغیرہ کی خریداری میں 4 کروڑ 23 لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مالی بے ضابطگیوں کے باوجود اب تک کسی ذمہ دار اہلکار کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی۔ آڈٹ رپورٹ کے تمام نکات پر تاحال جواب طلب کیے جا رہے ہیں اور محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی (DAC) کا اجلاس بھی اب تک منعقد نہیں ہو سکا۔ اس سے وزارت کے اندر احتساب کے فقدان اور مالی بےقاعدگیوں سے نمٹنے میں سستی کی نشاندہی ہوتی ہے۔

مالی سال 2022-23 کی آڈٹ رپورٹ میں بھی کئی اہم مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، جن میں 21 کروڑ 68 لاکھ روپے مالیت کے غیر حساب شدہ اسٹاک، منصوبہ جات کی تکمیل میں تاخیر سے بڑھنے والی لاگت، اور پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ سے 2 کروڑ 23 لاکھ روپے کی عدم وصولی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ملازمین کو غیر قانونی اعزازیہ، حکومتی گاڑیوں کا ناجائز استعمال، اور اسٹورز کے اسٹاک کی تصدیق نہ ہونا بھی رپورٹ میں درج ہے۔

کچھ معاملات میں DAC نے مشروط تصفیے کی سفارش کی، مثلاً ٹیکس سرٹیفکیٹ یا ریکارڈ کی تصدیق پر، لیکن متعدد بے قاعدگیاں بدستور برقرار ہیں۔ خاص طور پر دو سرکاری گاڑیوں کی غیر قانونی تحویل کی شکایت کئی سالوں سے حل طلب ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

احتساب کے فقدان پر قانون ساز اور ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحت جیسے اہم شعبے میں اس قسم کی مالی بدنظمی نہ صرف داخلی نظم و نسق پر سوالات اٹھاتی ہے بلکہ سرکاری وسائل اور پالیسی پر عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے