گلگت بلتستان میں تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم

newsdesk
8 Min Read
گلگت بلتستان میں کوہِ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے سنگم کی جغرافیائی، ماحولیاتی اور سیاحتی اہمیت اور حفاظتی تقاضے۔

تحقیق و تحریر: چنگیز خان جدون۔

تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم، پاکستان کی جغرافیائی عظمت، اہمیت، اور مستقبل کی ضروریات۔

یہ تصویر ایک نہایت خوبصورت اور جغرافیائی لحاظ سے اہم مقام کی ہے، جہاں تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم، اور کوہِ ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔ اسی جگہ دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا سنگم بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ مقام شمالی پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہے اور قدرتی حسن، ماحولیاتی تنوع، اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے پوری دنیا میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان قدرتی مناظر، جغرافیائی تنوع، اور ماحولیاتی خوبصورتی سے مالا مال ملک ہے۔ شمالی علاقہ جات، خصوصاً گلگت بلتستان، قدرت کی بیمثال کاریگری کا مظہر ہیں۔ یہاں دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم، اور کوہِ ہندوکش — ایک دوسرے سے آ ملتے ہیں۔ یہ جغرافیائی مقام نہ صرف قدرتی حسن کے لحاظ سے بیمثال ہے بلکہ اس کی سائنسی، ماحولیاتی، سیاحتی اور تزویراتی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں دنیا کی کئی عظیم چوٹیوں میں سے کچھ، جیسے کے ٹو (K2)، ننگا پربت، اور راکا پوشی، اپنی شان و شوکت سے آسمان کو چھوتی ہیں۔ اسی مقام سے دو عظیم دریا — دریائے سندھ اور دریائے گلگت بہہ کر پاکستان کی زمینوں کو زرخیز کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسے چند ہی مقامات ہیں جہاں تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں جڑتے ہیں۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ، اور کوہِ ہندوکش کا یہ سنگم نہ صرف قدرتی عجوبہ ہے بلکہ زمین کی ساخت (Tectonic Plates) کے لحاظ سے بھی ایک سائنسی معجزہ ہے۔ یہ علاقہ انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کے ملاپ کی نشاندہی کرتا ہے — یہی تصادم لاکھوں سال قبل ان بلند و بالا پہاڑوں کے بننے کا باعث بنا۔

قدرتی حدود: یہ خطہ وسطی ایشیا، چین، بھارت، اور پاکستان کو آپس میں جوڑتا ہے۔

تزویراتی پوزیشن: پاکستان، چین، افغانستان، اور وسطی ایشیائی ممالک کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ دفاعی اور تجارتی دونوں لحاظ سے کلیدی کردار رکھتا ہے۔

پانی کا ذخیرہ: یہاں کے گلیشیئرز سے دریائے سندھ اور دیگر معاون دریاؤں کو پانی ملتا ہے جو پاکستان کے زرعی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقے نہ صرف حسین مناظر کا خزانہ ہیں بلکہ یہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی انتہائی قیمتی ہیں۔ ان علاقوں میں موجود برف پوش چوٹیوں اور گلیشیئرز سے پاکستان کو سال بھر کے لیے تازہ پانی حاصل ہوتا ہے۔ بلتورو، سیاچن، بیافو، اور برافُت جیسے بڑے گلیشیئر دنیا کے سب سے وسیع گلیشیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔

قدرتی آکسیجن اور ماحول کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ جنگلی حیات جیسے برفانی چیتا، مارخور، اور نایاب پرندوں کا مسکن ہے۔ جڑی بوٹیوں اور دوا سازی کے لحاظ سے بھی نہایت اہم ہے۔

سیاحت کی اہمیت

گلگت بلتستان کا یہ علاقہ پاکستان کے سیاحتی خزانوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے کوہ پیما اور سیاح یہاں آتے ہیں تاکہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر سکیں اور قدرت کے حسین مناظر کا لطف اٹھا سکیں۔ راکا پوشی ویو پوائنٹ، شندور پاس، خنجراب نیشنل پارک، عطاآباد جھیل اور فیری میڈوز جیسے مشہور مقامات میں شامل ہیں۔ یہ علاقے ملکی معیشت میں سیاحت کے ذریعے اربوں روپے کی آمدن لا سکتے ہیں، بشرطیکہ حکومت بنیادی سہولیات اور محفوظ راستوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ گلگت بلتستان کا یہ خطہ صرف جغرافیائی لحاظ سے نہیں بلکہ ثقافتی اور تاریخی طور پر بھی زرخیز ہے۔ یہ علاقہ قدیم شاہراہِ ریشم (Silk Route) کا حصہ رہا ہے، جس کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارت اور ثقافتی تبادلے ہوا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگ محنتی، مہمان نواز، اور متنوع ثقافتوں کے حامل ہیں۔ شینا، بلتی، وخی، بروشسکی اور دیگر زبانیں اس خطے کی ثقافتی رنگا رنگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ خطہ زمین کے ماہرین (Geologists) کے لیے ایک کھلا تجربہ گاہ ہے۔ یہاں زمین کی ساخت، گلیشیئرز کے بہاؤ، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مطالعہ دنیا بھر کے سائنسدان کرتے ہیں۔ خاص طور پر، کوہِ قراقرم کا مطالعہ دنیا کے ماحولیاتی نظام میں تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ قیمتی پتھر (روبی، پکھراج، زمرد وغیرہ) معدنیات (تانبا، سنکھیا، سونا)جیسے معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ او ر یہاں سے قدرتی توانائی کے ذرائع حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ان وسائل کو سائنسی بنیادوں پر دریافت اور استعمال کیا جائے تو نہ صرف مقامی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ پاکستان کی مجموعی اقتصادی ترقی میں بھی بڑا حصہ ڈال سکتی ہے۔

اس قدرتی خزانے کو محفوظ رکھنے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں، 1. ماحولیاتی تحفظ، گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ گلیشیئر مانیٹرنگ سسٹم قائم کیے جائیں۔ غیر قانونی تعمیرات اور درختوں کی کٹائی پر پابندی لگائی جائے۔ ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ سیاحت کو محفوظ اور پائیدار بنانے کے لیے معیاری سڑکیں، ہوٹل، اور ریسٹ ہاؤسز تعمیر کیے جائیں۔مقامی لوگوں کو سیاحتی تربیت دی جائے تاکہ وہ معاشی طور پر مستفید ہوں۔یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کو گلیشیئر اسٹڈیز، ماحولیاتی سائنس، اور سیاحتی ترقی پر تحقیق کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

شاہراہِ قراقرم (Karakoram Highway) کو مزید بہتر کیا جائے تاکہ یہ چین، وسطی ایشیا اور پاکستان کے درمیان تجارتی راہداری کے طور پر اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے۔ تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم پاکستان کے لیے ایک قدرتی تحفہ ہے۔ یہ نہ صرف ملک کی خوبصورتی اور سیاحتی کشش کو بڑھاتا ہے بلکہ مستقبل کی اقتصادی، سائنسی اور ماحولیاتی ترقی کا محور بھی بن سکتا ہے۔ اگر اس خطے کی حفاظت، ترقی اور پائیدار استعمال پر توجہ دی جائے تو پاکستان آنے والے وقتوں میں ”ایشیا کا ماحولیاتی اور سیاحتی مرکز” بن سکتا ہے۔ یہ علاقہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قدرت نے پاکستان کو وہ سب کچھ عطا کیا ہے جس کی بدولت ہم ایک مضبوط، خوشحال اور پائیدار قوم بن سکتے ہیں — بس ضرورت ہے اس ورثے کو سمجھنے، سنبھالنے، اور محفوظ رکھنے کی۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے