وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال نے اتوار کے روز سیلاب سے شدید متاثرہ گاؤں دودھے کا دورہ کیا جہاں انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی اور موقع پر موجود بچوں میں اسکول بیگز، کتابیں اور یونیفارمز تقسیم کیے تاکہ ان کے تعلیمی سفر کو جلد از جلد دوبارہ جاری رکھا جا سکے۔ سیلاب زدگان کے لئے اس قدم کو مقامی لوگوں نے اہم قرار دیا اور بچوں کی بحالی پر زور دیا گیا۔وفاقی وزیر نے سیلاب زدگان کی جرات، حوصلے اور ثابت قدمی کی ستائش کی اور کہا کہ پاکستانی قوم مشکل حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے انتظامیہ، ریسکیو، پولیس اور افواجِ پاکستان کی بروقت کوششوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جس کی بدولت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان روکا جا سکا۔حکومت نے ریلیف، بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت کے لیے سروے ٹیمیں مقرر کر دی ہیں جو فصلوں، مکانات اور راستوں کے نقصانات کا تخمینہ لگا رہی ہیں تاکہ متاثرہ علاقوں کی جلد از جلد بحالی ممکن ہو سکے۔ وفاقی وزیر نے اس امر کی وضاحت کی کہ بحالی کا عمل منظم انداز میں چلایا جائے گا اور سیلاب زدگان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔پروفیسر احسن اقبال نے تعلیم کو غربت کے خاتمے کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا اور واضح کیا کہ لڑکیوں کے ساتھ بھی برابر مواقع کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ نارووال میں ڈھائی سو سے زائد اسکول قائم کیے گئے ہیں جن میں خاصی تعداد لڑکیوں کے اسکولوں کی ہے، جبکہ یونیورسٹی نارووال میں زیرِ تعلیم طلبہ میں اکثریت بچیوں کی ہے جو ایک سماجی تبدیلی کی علامت ہے۔وزیر نے کہا کہ اکیسویں صدی طاقت اور وسائل کی نہیں بلکہ علم اور ذہانت کی صدی ہے، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کو جدید تعلیم، کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ عالمی مقابلے میں اپنا مقام بنا سکیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے وسائل بروئے کار لانے اور بحالی و تعمیرِ نو کے عمل میں ساتھ کھڑے رہنے کا عزم دہرایا۔“گھر اور کھیت دوبارہ تعمیر کیے جا سکتے ہیں، مگر اگر کسی بچے کی تعلیم چھن جائے تو اس کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔” پروفیسر احسن اقبال نے اس صورتحال پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور سیلاب زدگان کی تعلیمی بحالی کو اولین ترجیح قرار دیا۔
