صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن — صحافی اور میڈیا ادارے بے خبر اور بے پرواہ
تحریر: اقرا لیاقت
دنیا بھر میں اظہارِ رائے اور صحافت کی آزادی کو جمہوری معاشروں کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ صحافی وہ افراد ہیں جو سچ، شفافیت، اور عوامی مفاد کی خاطر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر خبریں عوام تک پہنچاتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہی پیشہ — جو روشنی کی علامت ہے — اکثر اندھیروں میں دفن ہو جاتا ہے جب صحافیوں کو سچ بولنے کی سزا دھمکیوں، تشدد، یا موت کی صورت میں ملتی ہے۔
سال 2013 میں اقوام متحدہ نے 2 نومبر کو "صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن” قرار دیا۔ اس دن کا مقصد نہ صرف ان صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے جو اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران جان کی بازی ہار گئے بلکہ حکومتوں اور اداروں کو یہ یاد دہانی کرانا بھی ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد A/RES/68/163 کے تحت منایا جاتا ہے، جو 18 دسمبر 2013 کو منظور ہوئی۔ اس قرارداد میں رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام اور تحقیقات کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات کریں۔ اس دن کو منانے کی بنیادی وجہ مالی میں فرانسیسی صحافیوں غزلین ڈوپوں اور کلود ورلون کے قتل کے واقعات تھے، جنہوں نے یہ ظاہر کر دیا کہ اب صحافیوں کے خلاف تشدد صرف جنگی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی بحران بن چکا ہے۔
یونیسکو، رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا بھر میں 1700 سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا گیا۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 85 فیصد کیسز میں قاتلوں کو کبھی سزا نہیں ملی۔ یہ اعداد و شمار عالمی انصاف کے نظام پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں اور صحافت کی آزادی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
یونیسکو کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق ہر پانچ دن بعد ایک صحافی قتل کیا جاتا ہے۔ 2020 سے 2024 کے درمیان 45 ممالک میں صحافیوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر وہ تھے جو بدعنوانی یا حساس معاملات پر تحقیقات کر رہے تھے۔ کئی ممالک میں قتل، اغوا، جبری گمشدگی، اور سوشل میڈیا پر کردار کشی معمول بن چکے ہیں۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔ RSF کے مطابق 2000 سے اب تک 150 سے زائد پاکستانی صحافی قتل یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
چند نمایاں مثالیں:
-
ڈینیئل پرل (2002) — وال اسٹریٹ جرنل کے امریکی رپورٹر، کراچی میں اغوا اور قتل۔
-
حیات اللہ خان (2006) — فاٹا کے صحافی، امریکی ڈرون حملوں پر رپورٹنگ کے بعد قتل۔
-
سلیم شہزاد (2011) — ان کا قتل پاکستان میں آزادیٔ صحافت پر کاری ضرب ثابت ہوا۔
-
عارف حبیب، بابر قاضی اور درجنوں دیگر صحافی بھی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کو نہ صرف قانونی تحفظ کے فقدان کا سامنا ہے بلکہ طاقتور حلقوں کے دباؤ اور میڈیا اداروں کی کمزور پالیسیوں نے ان کی زندگیوں کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ جمہوری نظام میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، لیکن جب یہ ستون خوف، جبر، اور مفادات کے بوجھ تلے دب جائے، تو پورا نظام لرزنے لگتا ہے۔
بدقسمتی سے آزادیٔ اظہار کے نعرے اکثر تقاریر اور بیانات تک محدود رہ جاتے ہیں، جبکہ حقیقت میں صحافی سینسرشپ، دباؤ، اور تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر میڈیا تنظیمیں — چاہے ملکی ہوں یا بین الاقوامی — اس دن کی اہمیت سے بے خبر اور بے پرواہ نظر آتی ہیں۔ بیشتر ادارے صرف علامتی بیانات یا سوشل میڈیا پوسٹس تک محدود رہتے ہیں، جبکہ عملی طور پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی سنجیدہ حکمتِ عملی نہیں اپناتے۔
2 نومبر کو منایا جانے والا “عالمی دن برائے اختتامِ استثنیٰ بر جرائمِ صحافیان” محض ایک یادگار دن نہیں، بلکہ ایک عالمی عہد ہے — ایک وعدہ کہ ہم ان آوازوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے جو سچ بولنے کی پاداش میں خاموش کر دی گئیں۔ یہ دن حکومتوں، میڈیا اداروں، عدالتی نظام، اور عوام کو یاد دلاتا ہے کہ “صحافت پر حملہ دراصل عوام کے حقِ جاننے پر حملہ ہے۔”
سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں معلومات کی ترسیل کے ذرائع بڑھ گئے ہیں، وہیں صحافیوں کے لیے خطرات بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ڈیجیٹل ہراسانی، آن لائن ٹرولنگ، سائبر نگرانی، اور قانونی انتقام وہ نئے ہتھیار ہیں جو خون بہائے بغیر صحافیوں کو ذہنی اذیت، بدنامی، اور مالی تباہی کا شکار بنا دیتے ہیں۔
