
کرپشن کیسے ختم ہوگی؟
تحریر: ظہیر احمد اعوان
جن معاشروں میں جزا و سزا کا نظام کمزور پڑ جائے وہ معاشرے آہستہ آہستہ جنگل کی طرح ہو جاتے ہیں۔ جنگل میں طاقتور کا قانون چلتا ہے اور کمزور کی کوئی بات نہیں سنی جاتی۔ جب انسانی معاشرے میں انصاف کا تصور ختم ہو جائے تو پھر وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو جنگل میں ہوتی ہے۔ دنیا کے وہ تمام ملک جنہوں نے ترقی کی ہے، وہاں سب سے پہلے قانون مضبوط کیا گیا، جرم پر فوری اور یقینی سزا دی گئی اور انصاف کو سب کے لیے برابر رکھا گیا۔پاکستان کو بنے 78 سال ہو گئے ہیں لیکن افسوس کہ آج بھی کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جس میں کرپشن، سفارش اور اقربا پروری نہ ہو۔ ہر سیاسی جماعت الیکشن سے پہلے کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہی پرانا راستہ اختیار کر لیتی ہے۔ گھروں، محفلوں، بازاروں اور دفاتر میں ہر جگہ یہی بات ہوتی ہے کہ کرپشن بڑھ گئی ہے، لیکن یہ مرض کم ہونے کے بجائے مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرتی رویّوں میں شامل ہو چکی ہے۔جو قومیں اپنی غلطیوں اور گناہوں پر نادم نہ ہوں وہ دیرپا نہیں رہ سکتیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی پر نہیں۔ اسلام کرپشن، رشوت اور بددیانتی کو سخت ترین گناہ قرار دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "الراشی والمرتشی کلاھما فی النار” یعنی رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں کرپشن کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔خلفائے راشدین کے دور میں سرکاری اہلکاروں کی سخت نگرانی ہوتی تھی اور اگر کسی کے پاس آمدن سے زیادہ مال پایا جاتا تو وہ بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا۔ اسلامی نظام کی بنیاد ہی امانت، دیانت اور شفافیت پر ہے۔دنیا کے جدید معاشروں میں بھی کرپشن کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ چین میں کرپشن پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں سرکاری ادارے شفاف انداز میں کام کرتے ہیں۔ سنگاپور اور یورپ کے کئی ممالک نے قانون کی سختی، آزاد عدلیہ اور مؤثر احتساب کے ذریعے کرپشن کو بہت کم کر دیا ہے۔ وہاں کوئی شخص چاہے کتنے بڑے عہدے پر فائز ہو، قانون کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ہمارے اپنے ملک کے آئین میں بھی کرپشن کے خلاف واضح احکامات موجود ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق بددیانت اور کرپٹ شخص قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینیٹ یا کسی دوسرے اعلیٰ عہدے کا اہل ہی نہیں۔ مگر افسوس کہ ان اصولوں پر مکمل عمل نہیں ہو رہا۔ہمارے قومی رہنما قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے کرپشن کو قوموں کی بربادی قرار دیا۔قائداعظم محمد علی جناح نے کبھی ذاتی کام کے لیے ریاستی خزانے کا استعمال نہیں کیا اور ہمیشہ امانت و دیانت کو اپنا اصول بنایا۔ انہوں نے بارہا کہا کہ ایک دیانت دار قیادت ہی قوم کو آگے لے جا سکتی ہے۔پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو، عدالتی نظام تیز اور مؤثر ہو، سرکاری اداروں میں شفافیت لائی جائے اور کرپشن میں ملوث افراد کو سخت سزا ملے۔ ساتھ ہی معاشرے میں اخلاقی تربیت اور دیانت داری کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسا ملک دینا چاہتے ہیں۔ کرپشن اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک ہم اس کو برائی نہ سمجھیں اور اس کے خلاف اجتماعی طور پر کھڑے نہ ہوں۔ انصاف، مضبوط قانون، دیانت داری اور سب کے لیے یکساں احتساب ہی وہ راستہ ہے جس سے ہمارا معاشرہ بہتر اور مضبوط بن سکتا ہے۔
Read in English: How Can Corruption Be Eliminated?
