منشیات فروش اور ان کے سرپرست رحم کے مستحق نہیں

newsdesk
5 Min Read
منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان خاندان، تعلیم اور سماجی تحفظ کو متاثر کر رہا ہے۔ حکومت کو سخت قوانین، تیز انصاف اور رسد کے خاتمے کے اقدام درکار ہیں۔

منشیات فروش اور ان کے سرپرست کسی رعایت کے مستحق نہیں
تحریر: ظہیر احمد اعوان
دنیا بھر میں منشیات ایک سنگین معاشرتی، اخلاقی اور معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، ہر معاشرہ اس لعنت کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ منشیات نہ صرف انسانی صحت اور ذہنی سکون کو تباہ کرتی ہیں بلکہ خاندانی نظام، سماجی اقدار اور قومی ترقی کے لیے بھی زہرِ قاتل ہیں۔ہمارے اپنے معاشرے میں صورتحال تشویشناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ گلی محلوں، قصبوں، تعلیمی اداروں، پارکوں اور حتیٰ کہ قبرستانوں کے آس پاس بھی نوجوان نسل منشیات کے استعمال میں مبتلا نظر آتی ہے۔ کبھی یہ نشہ فیشن سمجھ کر شروع ہوتا ہے، مگر جلد ہی انسان کو زندگی بھر کے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
منشیات کا سماجی نقصان منشیات کا استعمال صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے والدین، بہن بھائی، رشتہ دار اور پورا محلہ اس کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔ ایسے افراد گھریلو تنازعات، تشدد اور جرائم کا باعث بنتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، قتل اور دیگر سنگین جرائم اکثر انہی ہاتھوں سے سرزد ہوتے ہیں جو کبھی تعلیم یا روزگار کے میدان میں آگے بڑھ سکتے تھے۔
قانونی کارروائیاں اور ان کی حدودمنشیات کے خلاف مختلف ادارے کارروائیاں کر رہے ہیں، جن میں اینٹی نارکوٹکس فورس (ANF) سرفہرست ہے۔ یہ ادارہ محدود وسائل کے باوجود بڑی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، خاص طور پر بین الاقوامی سمگلنگ نیٹ ورکس کے خلاف۔ تاہم، چھوٹے پیمانے پر گلی محلوں یا تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی روکنے کی ذمہ داری پولیس کے ذمے ہے۔ بدقسمتی سے پولیس کی کارروائیاں اکثر وقتی ثابت ہوتی ہیں، اور ناقص تفتیش یا قانونی کمزوریوں کی وجہ سے اکثر منشیات فروش عدالتوں سے آسانی سے بری ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک نے منشیات کے خلاف سخت قانون سازی اور جامع پالیسیوں کے ذریعے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

  • سنگاپور اور ملائیشیا میں منشیات سمگلنگ پر سزائے موت تک دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان ممالک میں منشیات کے جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔
  • سعودی عرب میں بھی منشیات کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی (Zero Tolerance) اپنائی گئی ہے۔
  • ایران نے حالیہ برسوں میں سینکڑوں کلومیٹر سرحد پر جدید نگرانی کے نظام قائم کیے تاکہ افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ روکی جا سکے۔
    ہمارے اپنے ملک میں بھی اگر اس طرز پر سخت قانون سازی، تیز رفتار انصاف، اور عدالتی شفافیت کو یقینی بنایا جائے تو ہم اس عفریت کو کافی حد تک قابو کر سکتے ہیں۔منشیات کی کاشت اور سپلائی چین منشیات کا کاروبار ایک منظم نیٹ ورک کے تحت چلتا ہے۔ اس میں صرف فروش ہی نہیں بلکہ کاشت کار، سپلائر، ٹرانسپورٹر، اور بعض اوقات اثر و رسوخ رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم صرف چھوٹے فروشوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو یہ عارضی حل ہوگا۔ اصل ضرورت پوری سپلائی چین کو توڑنے کی ہےاس کے لیے کسانوں کو منشیات کی کاشت کے متبادل روزگار فراہم کرنا، اسمگلروں کے نیٹ ورک کی مالی کڑیوں تک پہنچنا، اور اس کاروبار کی سرپرستی کرنے والے بااثر عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے آگاہی فراہم کریں۔ تعلیمی نصاب میں منشیات کے نقصانات پر مضامین شامل کیے جائیں، اور میڈیا کے ذریعے باقاعدہ آگاہی مہمات چلائی جائیں۔منشیات فروش اور ان کے سرپرست معاشرے کے دشمن ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چند پیسوں کے عوض نوجوان نسل کا مستقبل برباد کر دیتے ہیں۔ ایسے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر منشیات فروشوں کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر سخت ترین اقدامات کرے، عدالتیں تیز رفتار فیصلے سنائیں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔
    اگر ہم نے اب بھی اس مسئلے کو معمولی سمجھا تو آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولیں گی جہاں نشہ عام اور ہوش نایاب ہوگا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پورا معاشرہ متحد ہو کر اعلان کرے
    منشیات فروش اور ان کے سرپرست کسی رعایت کے مستحق نہیں!
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے