وزارت برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ منشیات کا بحران نوجوان نسل کے لیے ایک سنگین سماجی مسئلہ بن چکا ہے اور اس کے تدارک کے لیے ریاست، تعلیمی ادارے اور مقامی برادریوں کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ وزارت کے نمائندوں نے کہا کہ اس مسئلے کو فردی ناکامی کے طور پر دیکھنا درست نہیں بلکہ آگاہی، ہمدردی اور ادارہ جاتی ذمہ داری کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔یہ بیانات جامعہ فیصل آباد کے شعبۂ قانون کے اشتراک سے منعقدہ ایک آگاہی سیمینار میں دیے گئے جہاں وزارت برائے انسانی حقوق اور شراکت دار اداروں نے شرکت کی۔ نمائندگان نے صاف کہا کہ منشیات نہ صرف سماجی استحکام کو کمزور کر رہی ہیں بلکہ عوامی صحت اور ملک کے آئندہ ورک فورس کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔شرکاء کو بتایا گیا کہ ابتدائی تعلیم اور بروقت مداخلت سے طویل مدتی نقصان کو روکا جا سکتا ہے، خاص طور پر طالبعلموں اور نوجوان بالغوں کے درمیان۔ اس موقع پر مانگ کی گئی کہ مضبوط روک تھام کے طریقے، باآسانی دستیاب بحالی خدمات اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے والے اقدامات کو ترجیح دی جائے تاکہ مسئلے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔نمائندگان نے زور دیا کہ موثر جواب کے لیے حکومت کے مختلف محکموں، یونیورسٹیوں اور مقامی کمیونٹیز کے مابین مربوط حکمت عملی درکار ہے، نہ کہ صرف کڑے نفاذی اقدامات۔ اس بات پر بھی اعتماد ظاہر کیا گیا کہ منشیات کا بحران کو ہمدردی اور رہنمائی کے ذریعے سنبھالا جائے تاکہ متاثر افراد بدنامی کے بجائے بحالی کی راہ اختیار کریں۔سیمینار میں طالبعلموں کو منشیات کے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور انہیں بطور علمبردار اور ہم عمری مددگار آگاہی پھیلانے کی ترغیب دی گئی۔ شرکاء سے کہا گیا کہ وہ ذمہ داری اور ہمدردی کا کلچر فروغ دیں تاکہ متاثرین کو شفا کے راستے پر لایا جا سکے۔وزارت برائے انسانی حقوق نے یقین دہانی کرائی کہ وہ آگاہی مہمات اور پالیسی اقدامات کی حمایت جاری رکھے گی تاکہ منشیات کا بحران کے خلاف اجتماعی قومی ردعمل مضبوط بنایا جا سکے۔
