مصطفیٰ کمال نے افتتاحی تقریب میں بتایا کہ ملک میں بیماریوں کا بڑا حصہ آلودہ پانی اور خراب سیوریج نظام سے پیدا ہوتا ہے اور اگر ہم "روک تھام بہتر از علاج” کے اصول کو اپنائیں تو عوامی صحت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کو بیماریوں کی ماں قرار دیا جانا چاہئے کیونکہ اب ہر چوتھا شہری اس مرض کا شکار ہے اور ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں۔وزیرِ صحت نے کہا کہ چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ ہسپتال بنائے جائیں، جب تک بنیادی احتیاطی اقدامات، صاف پانی کی فراہمی، طرزِ زندگی میں تبدیلی اور مضبوط پبلک ہیلتھ انفراسٹرکچر کو یقینی نہیں بنایا جاتا، بیماریوں کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ آلودہ پانی اور ناقص سیوریج ہی ملک میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب ہیں اور اگر صاف شربتِ آب فراہم کیا جائے تو ہسپتالوں پر بوجھ ستر فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان سے کراچی تک پانی کے وسائل میں آلودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقامی سطح پر سیوریج ٹریٹمنٹ سسٹمز کے قیام پر زور دیا۔انہوں نے ویکسین کے خلاف پھیلائی جانے والی مہم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت بچوں کو تیرہ اہم امراض سے بچانے کے لیے ویکسین مفت فراہم کر رہی ہے مگر ایک مخصوص گروہ غلط معلومات پھیلا کر صحتِ عامہ کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اسی موقع پر انہوں نے جڑی بوٹیوں اور قدرتی طریقہ علاج کے فروغ کو عہدِ حاضر کی ضرورت قرار دیا۔ڈاکٹر شہزاد علی خان نے سیمینار میں کہا کہ ذیابیطس کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک ہے اور اگر بنیادی صحت کی سہولیات، بہتر غذائیت، جسمانی مشقت اور بروقت اسکریننگ کو قومی ترجیحات میں شامل نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں نظامِ صحت شدید دباؤ میں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ طرزِ زندگی کی ادویات اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق کو مستقل قومی صحت پالیسی کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔کمشنر سوشل سکیورٹی پنجاب محمد علی نے بتایا کہ کام کرنے والی جماعت میں ذیابیطس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس سے سوشل سکیورٹی ہسپتالوں پر اضافی دباؤ پڑ رہا ہے اور انہوں نے عوامی شعور اجاگر کرنے والی مہمات کی اہمیت پر زور دیا۔ مجیب الرحمان قمبرانی، سابق سیکرٹری صحت بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان میں صاف پانی کی کمی اور کمزور سیوریج نظام بیماریوں کے بڑے محرک ہیں اور حکومت کی توجہ سے بیماریوں کی شرح میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق نے بتایا کہ ذیابیطس کے علاج میں مختلف جڑی بوٹیوں اور نباتاتی اجزاء کے استعمال کے بارے میں عالمی سطح پر تحقیق تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور پاکستان کو بھی اس شعبے میں تعلیمی اور تحقیقاتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد بیگ، ڈین برائے حیاتیاتی علوم نے کہا کہ بہت سے نباتاتی مرکبات ذیابیطس کے انتظام میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں مگر ان ادویات کی سائنسی جانچ اور منظوری وقت کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر مٹی-اُر-رحمن نے کہا کہ پاکستان میں بیماریوں کی وسیع تر وجہ غیر صحت مند طرزِ زندگی اور جسمانی سرگرمی کی کمی ہے اور اس رجحان کو بدلنے کے لیے قومی سطح پر پالیسی مداخلت درکار ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سمینہ نعیم نے خاص طور پر خواتین میں ذیابیطس، بالخصوص حاملہ خواتین میں پیدائشی ذیابیطس کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ صورتحال اکثر نظر انداز کی جاتی ہے جبکہ ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔سیمی نار میں حصہ لینے والے مقررین نے متفقہ طور پر کہا کہ آلودہ پانی کے خاتمے، موثر سیوریج نظام، طرزِ زندگی کی اصلاح، بروقت ویکسینیشن اور جڑی بوٹیوں کی سائنسی تحقیق سے نہ صرف ذیابیطس بلکہ عمومی صحتِ عامہ میں بھی واضح بہتری لائی جا سکتی ہے، اور یہ اقدامات ملک بھر میں صحت کے بوجھ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
