خیبرپختونخوا، گلگت اور آزاد کشمیر میں جنگلات کی کٹائی اور سیٹلائٹ تصدیق

newsdesk
4 Min Read

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی نے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں جاری جنگلاتی کٹائی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے صوبائی دعووں کی سیٹلائٹ کے ذریعے تصدیق اور نگرانی مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔

کمیٹی کی زیرِ صدارت منازہ حسن نے پارلیمنٹ ہائوس میں اجلاس کی قیادت کی۔ اجلاس میں پچھلی سفارشات کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور خاص طور پر لکڑی مافیا کی سرگرمیوں سے متعلق تحقیقات کی تفصیلات پر بات چیت ہوئی۔ کمیٹی نے صوبائی حکام سے جنگلات کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے میں حکمتِ عملی کی فوری کڑی کرنے پر زور دیا۔

خیبر پختونخوا کے سیکرٹری ماحولیات نے بتایا کہ صوبے میں جنگلاتی احاطہ بہتر ہوا ہے اور یہ دعوے تیسرے فریق کی جانچ سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔ انہوں نے قانونی کٹائی کی نگرانی، 2.3 ملین مکعب فٹ لکڑی ضبطگی اور 360 سے زائد گاڑیوں و آلات کی ضبطی کی رپورٹ پیش کی۔ تاہم اراکین نے اس مثبت تصویر پر سوال اٹھائے اور آگ سے تحفظ کے لیے منظم نظام کی غیر موجودگی اور لکڑی مافیا کی جاری سرگرمیوں کی نشاندہی کی۔ چیئرمین نے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کو سراہا مگر نگرانی کے عملی اقدامات پر زور دیا گیا۔

گلگت بلتستان کے نمائندوں نے آگاہ کیا کہ مجموعی طور پر جنگلاتی زمین نسبتاً مستحکم ہے مگر 1980 کی دہائی میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور قانون و انصاف کے بگڑنے کے باعث تاریخی تنزلی ہوئی تھی۔ انہوں نے جنگلاتی تحفظ کے لیے آئینی ضمانتیں اور وفاقی تکنیکی مدد خصوصاً ڈیجیٹل مانیٹرنگ کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے سیکرٹری نے جواب میں کہا کہ جنگلات کے لیے قومی جغرافیائی انفارمیشن سسٹم جلد قائم کیا جائے گا۔ کمیٹی نے ایٹابڈ جھیل کے قریب ضابطوں کی خلاف ورزی میں ہوٹلوں کی تعمیر کے متعلق رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا اور گلگت حکام نے بتایا کہ ایسے ہوٹل بند کیے جا رہے ہیں اور نئی تعمیرات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر کے جنگلاتی محکمے نے بیان دیا کہ کمرشل کٹائی پر مکمل پابندی ہے اور IUCN کے مطالعے کے مطابق جنگلاتی احاطہ 10 فیصد بڑھا ہے۔ اس کے باوجود اراکین نے دیودار اور فر کے لکڑی کی سمگلنگ کو بڑے پیمانے پر جاری قرار دیا اور بتایا کہ پہاڑوں سے درختاں غیر قانونی طور پر اکھاڑے جا رہے ہیں۔ تفصیلی بحث کے بعد کمیٹی نے صوبائی دعووں کی تصدیق کے لیے سپارکو کی سیٹلائٹ تصاویر فراہم کرانے اور مانیٹرنگ کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کی سفارش کی۔

اجلاس میں میر خان محمد جمالی، شائستہ خان، سیدہ شہلا رضا، مسرت رفیق محیسر، رانا انصار، عائشہ نذیر (بصورتِ مجازی) اور شاہدہ رحمانی سمیت دیگر ارکان قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے سینئر حکام اور وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے موجود تھے۔ کمیٹی نے جنگلات کے تحفظ، غیر قانونی کٹائی کی روک تھام اور وفاقی و صوبائی سطح پر تکنیکی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے