کہاں گئے وہ لوگ؟
تحریر:ظہیراحمداعوان
اکثر دل یہ سوال کرتا ہے کہ آخر وہ لوگ کہاں گئے جن کی موجودگی سے معاشرہ ایک خاندان کی طرح جڑا رہتا تھا؟ وہ سیاستدان کہاں ہیں جو ہر چوک، ہر چوراہے اور محلوں کے تھڑوں پر عوام کے درمیان بیٹھے دکھائی دیتے تھے؟ عوامی مسائل سنتے تھے، بات کرتے تھے، اور عوامی خدمت ہی سیاست کی بنیاد سمجھتے تھے۔ آج کے سیاستدان عوام سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ان کے درمیان دیوار کھڑی ہو گئی ہے۔
وہ اساتذہ کہاں گئے جن کی محض ایک نظر یا قریب آ جانے سے طلبہ اپنے گریبانوں کے بٹن احترام یا خوف کے مارے بند کر لیتے تھے؟ استاد کی شخصیت علم کے ساتھ کردار کا پیکر سمجھی جاتی تھی، مگر آج یہ رشتہ کمزور ہو کر محض تنخواہ اور نصاب تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔
وہ ڈاکٹر کہاں گئے جن کی شفیق گفتگو اور دلجوئی سے مریض کی آدھی بیماری دور ہو جاتی تھی؟ آج یہ شعبہ بھی تجارتی رنگ اختیار کر چکا ہے، جہاں اکثر مریض کو علاج کے بجائے اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ معززین اور معتبرین کہاں گئے جو گلی محلوں اور شہروں میں تنازعات کو سلجھاتے تھے اور بات کو بڑھنے نہیں دیتے تھے؟ آج معمولی جھگڑے بھی عدالتوں اور تھانوں تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ سماج کے یہ ستون کہیں بکھر گئے ہیں۔
وہ مرد کہاں گئے جو دوسروں کی بہن، بیٹی یا بہو کو دیکھ کر نظریں جھکا لیا کرتے تھے؟ اب نظریں جھکنے کے بجائے موبائل کیمروں اور سوشل میڈیا کی اسیر ہو چکی ہیں۔
وہ علماء کہاں گئے جو انسانیت اور احترامِ آدمیت کا درس دیتے تھے؟ آج زیادہ زور اختلافات کو بڑھانے اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانے پر دیا جا رہا ہے۔
وہ شاعر، ادیب اور دانشور کہاں گئے جو ظلم اور ناانصافی پر کلمۂ حق بلند کرتے تھے؟ اب اکثر قلم بھی یا تو خاموش ہے یا مفاد پرستی کا شکار۔
اور آخر وہ منصف کہاں گئے جو انصاف بانٹتے تھے، جو مظلوم کو ڈھارس دیتے تھے اور ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کرتے تھے؟ آج انصاف کی تلاش خود ایک بڑی ناانصافی محسوس ہونے لگی ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب لوگ واقعی کہیں کھو گئے ہیں یا ہم نے اجتماعی طور پر ان اقدار کو دفن کر دیا ہے؟ شاید وقت ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ اگر ہم نے اپنے کردار اور ذمہ داریوں کو نہیں سنبھالا تو آنے والی نسلیں ہم سے بھی یہی سوال پوچھیں گی:
"کہاں گئے وہ لوگ؟”
