موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، سید محمد اشفاق
اسلام آباد — حقوق العباد ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (HEDF) کے صدر سید محمد اشفاق نے کہا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت چیلنجز کا سامنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ موسمیاتی پالیسیوں اور حکومتی لائحہ عمل میں خواتین کو درپیش ماحولیاتی مسائل کو اولین ترجیح دی جائے۔ وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں تنظیم کے عہدیداران حافظ محمد اصغر اور سپنا اجمل کے ہمراہ موسمیاتی تبدیلی کے صنفی اثرات پر مبنی رپورٹ پیش کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تمام شہریوں پر یکساں نہیں پڑتے، تاہم خواتین خصوصاً دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ محدود وسائل کے باوجود یہ تحقیق اپنی نوعیت کی پہلی قومی کوشش ہے جس میں معیاری (Qualitative) اور مقداری (Quantitative) دونوں طریقہ کار استعمال کیے گئے۔ سروے چاروں صوبوں — پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان — کے مختلف علاقوں میں کیا گیا، جس میں 800 سے زائد افراد نے حصہ لیا۔
رپورٹ کے نتائج کے مطابق، پاکستان میں خواتین موسمیاتی بحران کے بدترین اثرات کا سامنا کر رہی ہیں۔ قومی سطح پر 28.5 فیصد خواتین نے موسمیاتی تبدیلی کو اپنی سب سے بڑی تشویش قرار دیا، جبکہ بلوچستان میں یہ شرح 66.7 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ انفراسٹرکچر کی کمی اور حکومتی غیر فعالیت کے باعث 34.1 فیصد خواتین کو روزانہ پانی کے حصول کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں، جس سے ان کے روزمرہ کے بوجھ اور جسمانی تھکن میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ 25.1 فیصد خواتین نے تصدیق کی کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث ان کے گھریلو اور عملی کاموں کا بوجھ بڑھ گیا ہے، جبکہ 32 فیصد خواتین نے جسمانی تھکن اور ذہنی دباؤ کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اپنی سب سے بڑی مشکل قرار دیا۔ 58 فیصد خواتین نے بتایا کہ موسمیاتی آفات کے نتیجے میں ان کے آمدنی کے ذرائع ختم یا کم ہو گئے ہیں، کیونکہ فصلیں تباہ اور زرعی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
مزید برآں 30 فیصد خواتین نے موسمیاتی آفات سے نمٹنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کو مالی مشکلات قرار دیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ روایتی صنفی اصول اور ثقافتی پابندیاں خواتین کے لیے اضافی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ 40 فیصد خواتین کے مطابق انہیں موسمیاتی فیصلوں میں ثقافتی رکاوٹوں کے باعث حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا۔ بار بار ہونے والی موسمیاتی آفات اور گھروں کی دوبارہ تعمیر کے دباؤ نے کئی خواتین میں ذہنی صحت کے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں، جن میں ڈپریشن، بے چینی اور مستقل تھکن شامل ہیں۔
رپورٹ میں متعدد سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں شامل ہیں:
-
پانی کے بنیادی ڈھانچے میں صنفی لحاظ سے سرمایہ کاری، تاکہ خواتین کو محفوظ اور قریبی پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
-
تمام موسمیاتی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹیوں میں خواتین کی 50 فیصد نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
-
آفت زدہ علاقوں میں ذہنی صحت اور موسمیاتی صحت کی سہولیات کا انتظام کیا جائے۔
-
آفات کے بعد خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے مضبوط قانونی نظام تشکیل دیا جائے۔
-
خواتین کی معاشی خود مختاری اور موسمیاتی آگاہی کے خصوصی پروگرامز شروع کیے جائیں۔
سید محمد اشفاق نے کہا کہ پاکستان کے لیے پائیدار موسمیاتی حل تبھی ممکن ہے جب خواتین کو پالیسی سازی اور فیصلوں کے مرکز میں شامل کیا جائے۔
