پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح
تحریر: مریحہ بشیر اللہ، لیکچرار، یونیورسٹی آف لاہور
چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) دنیا بھر میں خواتین میں سب سے زیادہ پائے جانے والے امراضِ سرطان میں سے ایک ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خواتین کی کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ اس موذی مرض کے خطرے سے دوچار ہے، مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر صحت کے پالیسی سازوں کی توجہ سے محروم دکھائی دیتا ہے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اس مرض سے اموات کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں بروقت تشخیص کا نہ ہونا، صحت کی سہولیات تک محدود رسائی، بیماری کے بارے میں آگاہی کی کمی، معاشرتی روایات کی وجہ سے علاج میں تاخیر، اور معاشی مشکلات شامل ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 90 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں، جن میں سے 40 ہزار خواتین اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ عمومی طور پر یہ بیماری 40 سال سے زائد عمر کی خواتین میں پائی جاتی ہے اور خواتین میں ہونے والے تمام سرطانوں میں اس کا حصہ تقریباً 23 فیصد ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن ترقی پذیر ممالک میں وسائل کی کمی اور ناخواندگی کے باعث ہزاروں خواتین تشخیص یا علاج کے بغیر ہی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صحت کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر بروقت تشخیص اور علاج ممکن بنایا جائے تو بریسٹ کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بیماری کے بارے میں بھرپور آگاہی مہم چلائی جائے۔
جس طرح ایڈز کے لیے "ریڈ ربن” مہم عالمی سطح پر کامیاب ہوئی، اسی طرح "پنک ربن” (گلابی ربن) مہم کو بھی ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جانا چاہیے، کیونکہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق ایک معمولی تناسب میں مرد بھی اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ مہم صرف اکتوبر کے مہینے تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ پورے سال فعال انداز میں آگاہی اور معاونت کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مہم کے لیے فنڈز مختص کرے، صحت کے ماہرین کو شامل کرے، اور علاج کے اخراجات میں سبسڈی دے تاکہ مریضوں کو ریلیف فراہم ہو۔
بریسٹ کینسر کا علاج مریض کی عمر، مرض کی نوعیت، رسولی کے سائز اور مرحلے پر منحصر ہوتا ہے۔ "پنک ربن” مہم کے دوران خود معائنہ، طبی معائنہ اور میموگرافی کے ذریعے ابتدائی مرحلے میں بیماری کی تشخیص پر خصوصی زور دیا جاتا ہے۔
جب بیماری زیادہ بڑھ جاتی ہے تو علاج کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
سرجری (جراحی): جیسے لمپیکٹومی، ماسٹیکٹومی، ایکزیلری لمف نوڈ ڈسیکشن اور سینٹینل لمف نوڈ بایوپسی۔
ریڈی ایشن تھراپی (شعاعی علاج)
کیموتھراپی: جس میں ڈوکسوروبیسن، سائکلو فاسفامائیڈ، پیکلی ٹیکسل اور ڈاکی ٹیکسل جیسی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔
اینڈوکرائن (ہرمونل) تھراپی، ٹارگٹڈ تھراپی، امیونو تھراپی اور پالی ایٹو کیئر (ریلیف کیئر) بھی اہم علاج کے طریقے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے ہسپتالوں کی تعداد بہت کم ہے جہاں یہ علاج مفت یا رعایتی نرخوں پر دستیاب ہو۔ معیاری صحت کی سہولیات صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں، جبکہ دیہی اور دور دراز علاقوں میں نہ تو تشخیص کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی ماہر ڈاکٹر یا جدید آلات موجود ہیں۔
دور افتادہ علاقوں کی خواتین اکثر مرض کی تشخیص ہی نہیں کروا پاتیں۔ مقناطیسی ریزوننس میموگرافی (MRI Mammography) جیسے جدید تشخیصی طریقے ہر ضلعی اور تحصیلی سطح پر فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ بیماری کو ابتدائی مرحلے میں ہی پہچانا جا سکے اور قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں خاص طور پر شہری علاقوں میں نمایاں بہتری آئی ہے، جہاں اب بریسٹ کینسر پر بات کرنا کوئی ممنوع موضوع نہیں رہا، مگر دیہی علاقوں میں آج بھی اس پر گفتگو کو شرمناک سمجھا جاتا ہے۔ اس رجعت پسندانہ سوچ کی وجہ سے بے شمار خواتین خاموشی سے اس مرض کا شکار ہو جاتی ہیں اور علاج نہ ہونے کے باعث جان گنوا بیٹھتی ہیں۔
لہٰذا، یہ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلسل آگاہی مہمات پورے سال بھر خصوصاً دیہی علاقوں میں جاری رکھی جائیں تاکہ بیماری کے بڑھتے ہوئے کیسز پر قابو پایا جا سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے قومی سطح پر مربوط حکمتِ عملی تیار کرے، جس کے تحت ملک بھر میں تشخیص، سکریننگ اور علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
مزید برآں، تمام صحت مراکز میں بریسٹ ٹیومر بورڈز قائم کیے جائیں تاکہ مرض کے ہر پہلو پر ماہرین کی مشاورت سے فیصلہ کیا جا سکے۔ اسی طرح ضلعی سطح پر کینسر رجسٹری، تشخیصی و علاجی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ اس بڑھتی ہوئی صحت کی ہنگامی صورتحال پر قابو پایا جا سکے اور خواتین کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکیں۔
