دماغ کی ہیکنگ: سائبر خطرات کا نیا دور
ڈاکٹر ندیم احمد ملک
(ڈائریکٹر ڈی آئی ٹی ایس، پی ایم اے ایس ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی)
(nadeem.malik@uaar.edu.pk)
انسان اور مشین کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش صدیوں سے جاری ہے، لیکن اب برین-کمپیوٹر انٹرفیسز (Brain-Computer Interfaces – BCIs) نے یہ فاصلہ تقریباً ختم کر دیا ہے۔ اب انسان کو اپنی سوچ کو ظاہر کرنے کے لیے نہ کی بورڈ کی ضرورت ہے، نہ اسکرین کی، اور نہ ہی الفاظ کی۔
یہ ٹیکنالوجی دماغی سگنلز کے ذریعے براہِ راست مشینوں سے رابطہ ممکن بناتی ہے۔ فالج کے مریض مصنوعی اعضاء حرکت دے سکتے ہیں، سپاہی صرف سوچ کے ذریعے ڈرون کنٹرول کر سکتے ہیں، اور عام انسان اپنی دماغی سرگرمی سے ڈیجیٹل نظام سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
جو کبھی سائنس فکشن کا تصور تھا، آج حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
لیکن جیسے جیسے انسان دماغ اور مشین کے اس ملاپ کے قریب پہنچ رہا ہے، ایک نیا اور خطرناک دور سامنے آ رہا ہے — سائبر حملے اب صرف کمپیوٹرز تک محدود نہیں رہے، بلکہ انسانی دماغ تک پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔
روایتی ڈیجیٹل ڈیٹا کے برعکس، دماغی سگنلز نہایت ذاتی اور حساس ہوتے ہیں — یہ انسان کے جذبات، خیالات، ذہنی کیفیت اور فیصلے کرنے کے انداز تک کا پتا دیتے ہیں۔ اگر یہ ڈیٹا کسی ہیکر کے ہاتھ لگ جائے یا اسے بدلا جائے تو یہ محض پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں بلکہ انسانی شناخت اور آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
دماغی سگنلز اور خطرناک خلا
برین-کمپیوٹر انٹرفیسز کا نظام دماغی سگنلز کو ریکارڈ، تجزیہ اور منتقل کرتا ہے۔
الیکٹروڈز دماغ سے پیدا ہونے والی برقی لہروں کو پڑھ کر الگورتھم کے ذریعے کسی حکم میں بدل دیتے ہیں — مثلاً روبوٹک بازو حرکت دینا یا ڈیجیٹل کمانڈ بھیجنا۔ لیکن اس پورے عمل کے ہر مرحلے — ڈیٹا اکٹھا کرنے سے لے کر کلاؤڈ اسٹوریج تک — ہیکنگ کا خطرہ موجود ہے۔
تصور کریں اگر کوئی ہیکر مصنوعی بازو کو حرکت دینے والا سگنل بدل دے یا کسی میڈیکل امپلانٹ کی سیٹنگ میں چھیڑ چھاڑ کر دے۔
اور اگر یہ نیورل ڈیٹا، جو کلاؤڈ پر محفوظ ہے، لیک ہو جائے تو کسی شخص کی ذہنی صحت، فیصلوں کے انداز، یا جذباتی ردعمل تک کا ڈیٹا ہمیشہ کے لیے افشا ہو سکتا ہے — کیونکہ دماغی پیٹرن پاس ورڈ کی طرح تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔
نئی جنگ کا میدان: انسانی دماغ
سائبر وار فیئر کا نیا ہدف انفراسٹرکچر نہیں بلکہ انسانی ذہن ہو سکتا ہے۔
دنیا کے عسکری ادارے BCIs کو فوجی رابطوں اور فیصلوں میں تیزی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اگر ایسے نظاموں کو ہیک کر لیا گیا تو دشمن صرف کمپیوٹر نہیں بلکہ دماغ کو متاثر کر سکتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہو گا جب انسانی دماغ خود جنگ کا میدان بن جائے گا۔
اسی طرح کارپوریٹ اور ریاستی سطح پر بھی نیورل پروفائلنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے — کمپنیاں یا حکومتیں دماغی ڈیٹا کا تجزیہ کر کے انسان کے رویے، کمزوریوں یا خریداری کی عادات کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔
یہ معلومات اشتہارات، سیاسی اثر و رسوخ یا ذہنی کنٹرول کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔
یوں “ذہنی پرائیویسی” کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔
حفاظتی اقدامات اور اخلاقی ذمے داریاں
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کی کئی سطحوں پر اقدامات ضروری ہیں۔
دماغی ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے انکرپشن، بلاک چین بیسڈ اسٹوریج، اور اے آئی پر مبنی اینوملی ڈیٹیکشن سسٹمز متعارف کرائے جا رہے ہیں۔
مزید برآں ملٹی فیکٹر تصدیق (Multi-factor authentication) اور پرائیویسی پریزروِنگ الگورتھم ایسے طریقے فراہم کرتے ہیں جن سے ڈیٹا محفوظ رہتے ہوئے بھی تحقیق ممکن ہو سکے۔
لیکن ٹیکنالوجی اکیلے کافی نہیں۔
اس کے ساتھ اخلاقی اور قانونی فریم ورک کو بھی اپنانا ہوگا۔
دنیا کے کئی ممالک، بشمول یورپی یونین، نے “نیورو رائٹس” (Neurorights) کے تصور پر بحث شروع کر دی ہے — یعنی ذہنی شناخت، پرائیویسی، اور فکری آزادی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنا۔
نتیجہ: انسانی آزادی کا تحفظ
آرٹیفیشل انٹیلی جنس ایک دو دھاری تلوار ہے۔
یہ دماغی ڈیٹا میں مشکوک سرگرمیوں کو پکڑ سکتی ہے لیکن اسی کے ذریعے حملے بھی کیے جا سکتے ہیں۔
لہٰذا اگلے عشرے کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ دماغی ڈیٹا کو محفوظ رکھا جائے، بغیر اس کے کہ انسانی آزادی یا فکری خودمختاری متاثر ہو۔
ذمہ داری صرف انجینئرز یا سائبر ماہرین تک محدود نہیں — یہ نیورو سائنسدانوں، ماہرینِ اخلاقیات، پالیسی سازوں اور معاشرے سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
آخرکار سوچ اور یادداشت کی حرمت ہی انسانی آزادی کی بنیاد ہے۔
اگر ہم اپنے دماغ کو مشین سے جوڑنے جا رہے ہیں تو یہ لازمی ہے کہ ہم اپنے خیالات کو چوری یا ہیک ہونے سے بچا سکیں۔
برین-کمپیوٹر انٹرفیسز انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ضرور کریں گے، لیکن اگر سیکیورٹی اور اخلاقی تحفظات نہ اپنائے گئے تو یہی ٹیکنالوجی انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
دماغ کو سائبر خطرات سے محفوظ رکھنا صرف تکنیکی ضرورت نہیں، بلکہ اخلاقی فریضہ ہے — کیونکہ آزادیِ خیال وہ واحد حد ہے جسے کبھی عبور نہیں کیا جا سکتا۔
