بیٹیاں اپنے خوابوں کی سواری کر رہی ہیں

newsdesk
6 Min Read
شہروں میں خواتین کی سکوٹی خودمختاری کی علامت ہے، حفاظت، قانون اور تربیت سے یہ رجحان محفوظ اور پائیدار بن سکتا ہے

سڑکوں پر سکوٹی نہیں، خواب چلاتی بیٹیاں
تحریر: ظہیر احمد اعوان
شہر کی سڑکوں پر جب کوئی بیٹی یا بہن سکوٹی پر گزرتی ہے، تو یہ صرف ایک سواری کا منظر نہیں ہوتا، بلکہ خود انحصاری، حوصلے اور خوابوں کی تعبیر کی ایک روشن تصویر بنتا ہے۔یہ وہ دور ہے جب عورت اب کسی پر انحصار نہیں کرتی، بلکہ اپنی محنت، تعلیم اور ہمت کے بل پر زندگی کی گاڑی خود چلا رہی ہے۔مہنگائی، بے روزگاری، اور ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے کرایوں نے جہاں زندگی کو مشکل بنا دیا ہے، وہاں خواتین کا خود سکوٹی چلانا ایک مثبت تبدیلی کے طور پر اُبھرا ہے۔یہ منظر آج ہر شہر، ہر گلی میں دکھائی دیتا ہے — کہیں کوئی ماں بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہی ہے، کہیں کوئی بیٹی یونیورسٹی، کوئی بہن دفتر، اور کوئی اپنی ماں کو اسپتال۔یہ عورت کی خود اعتمادی، خودداری اور استقامت کی جھلک ہے۔یہ بیٹیاں سڑکوں پر صرف سکوٹیاں نہیں، اپنے خواب چلا رہی ہیں۔اسلام میں عورت کا احترام اور سماجی ذمہ داری اسلام نے عورت کو عزت، احترام اور تحفظ عطا کیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:“تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(ترمذی)
اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام کو ہمیشہ بلند رکھا گیا ہے۔بیٹی، بہن، ماں یا بیوی ہر روپ میں عورت رحمت ہے، اور اس کی عزت و حرمت کا خیال رکھنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
مگر افسوس کہ آج جب سڑکوں پر کوئی خاتون سکوٹی پر گزرتی ہے تو بعض اوباش اور بدکردار لوگ دنگاہی، تمسخر یا غیر اخلاقی رویے سے اس کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔یہ رویہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اخلاقی زوال کی علامت بھی ہے۔سڑک پر موجود ہر ڈرائیور، موٹر سائیکل سوار اور راہ گیر پر فرض ہے کہ وہ سکوٹی پر سوار خواتین کو اپنی بہن یا بیٹی سمجھ کر عزت دے، ان کے قریب گاڑی نہ چلائے، تیز اوور ٹیک نہ کرے، ان کے ساتھ ریس نہ لگائے، اور انہیں گزرنے کا پورا حق دے۔یہ رویہ صرف شائستگی نہیں، بلکہ تہذیب، تربیت اور ایمانکا مظہر ہے۔سماجی رویے اور قانون کا کردارہمارے ہاں بدقسمتی سے اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو خواتین کو سڑکوں پر ہراساں کرتے ہیں۔سیف سٹی کیمرے اور ٹریفک پولیس کو ایسے افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے تاکہ معاشرے کو ایک واضح پیغام جائے کہ عورت کا احترام قانوناً اور اخلاقاً لازم ہے۔اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر شہروں میں خواتین کی سکوٹیوں کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو ایک خوش آئند علامت ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے مثبت رجحان کو فروغ دے اور اس کے لیے تحفظ، تربیت اور سہولت فراہم کرے۔دنیا کی مثالیں محفوظ اور خودمختار خواتیندنیا کے کئی ممالک مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا، بھارت، چین، تھائی لینڈ اور ویتنام میں لاکھوں خواتین روزانہ سکوٹی چلاتی ہیں۔ان ممالک نے خواتین کے لیے الگ پارکنگ ایریاز، تربیتی مراکز، سکوٹی لائسنس کورسزاور خواتین ڈرائیونگ زونز قائم کیے ہیں۔یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ وہاں معاشرے نے عورت کو کمزور نہیں بلکہ قابلِ اعتماد شہری تسلیم کیا۔پاکستان میں بھی اگر حکومت وقت سنجیدہ اقدامات کرے، تو خواتین کے لیے محفوظ آمد و رفت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔وزارتِ ٹرانسپورٹ اور وزارتِ خواتین ترقی کو چاہیے کہ نوکری پیشہ اور ہنر مند خواتین کے لیے رعایتی یا مفت سکوٹیاں فراہم کرے۔
چین سے کم قیمت معیاری سکوٹیاں درآمد کر کے خواتین کو دی جا سکتی ہیں، جس سے روزگار اور معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عورت کا احترام مرد کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی تربیت، غیرت اور ایمان کا ثبوت ہے۔اگر ہم اپنی بیٹیوں کے لیے عزت چاہتے ہیں تو دوسروں کی بیٹیوں کے لیے بھی وہی عزت دینا ہوگی۔
سڑکوں پر خواتین کی سکوٹی سواری دراصل ہمارے معاشرے کا اخلاقی آئینہ ہے۔جس دن ہم نے ان خواتین کو مکمل احترام اور تحفظ فراہم کر دیا، وہ دن پاکستان کی حقیقی سماجی ترقی کا دن ہوگا۔بیٹیاں، بہنیں اور مائیں اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ان کی خودمختاری، تحفظ اور عزت صرف ان کا حق نہیں، بلکہ ہم سب کا فرض ہے۔ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گےسڑک پر جب کوئی بیٹی سکوٹی پر گزرے تو ہم اس کی حفاظت کے احساس سے بھر جائیں، نہ کہ تماشائی یا مزاحیہ رویے سے۔یہ بیٹیاں دراصل سڑکوں پر سکوٹیاں نہیں،اپنے خواب چلا رہی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے اس سفر کو محفوظ، محترم اور باوقار بنائیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے