پاکستان میں بچوں میں سیسہ زہرخورانی کی فوری روک تھام

newsdesk
4 Min Read

سندھ میں بچوں میں سیسہ سے زہرخورانی کے مسئلے پر ماہرین صحت، حکومتی عہدیداران اور مختلف شعبہ جات کے نمائندگان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کراچی میں ہونے والے اہم مشاورتی اجلاس میں طے پایا کہ بچوں میں سیسہ زہرخورانی کا خاتمہ صرف تکنیکی نہیں، ایک اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے جس کے لیے صوبائی و وفاقی سطح پر مضبوط قیادت اور مضبوط ضابطوں کی ضرورت ہے۔

ایواری ٹاور کراچی میں منعقدہ دو روزہ اجلاس میں وزارتِ قومی صحت خدمات، ضوابط و ہم آہنگی، یونیسیف اور ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے تعاون سے بچوں میں سیسہ زہرخورانی کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں محکمہ صحت، ماحولیات، فوڈ اتھارٹیز، چیمبر آف کامرس اور سول سوسائٹی کے علاوہ جامعات کے نمائندگان نے بھی حصہ لیا۔ اجلاس کا مقصد سیسہ سے زہرخورانی کے تیزی سے پھیلتے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے جامع قومی پالیسی اور کثیر شعبہ جاتی ایکشن پلان تیار کرنا تھا۔

ڈاکٹر ریحان راؤف نے اجلاس سے خطاب میں بتایا کہ ملک میں چار کروڑ سے زائد بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار عالمی حد سے زیادہ پائی جا رہی ہے، جو اُن کی ذہنی نشوونما اور صحت پر دیرپا منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیسہ چاہے کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، بچوں کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے اور آئی کیو کی کمی سمیت کئی دیرپا طبی مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیقی رپورٹوں کے بعد اب مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں رہا۔

شرکاء نے واضح کیا کہ سیسہ کی آلودگی خاص طور پر شہری و صنعتی علاقوں میں زیادہ ہے، جہاں غیر منظم صنعتی سرگرمیاں، پگھلائی اور ری سائیکلنگ کے عمل سے زہریلا سیسہ ماحول میں شامل ہو رہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو ہے، جس سے نہ صرف ان کی صحت بلکہ مجموعی قومی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

یونیسیف کی نمائندہ ڈاکٹر حمیرا ارشاد نے کہا کہ بچوں میں سیسہ زہرخورانی پاکستان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، جس کے خلاف مسلسل تکنیکی تعاون اور مالی وسائل کی فراہمی جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یونیسیف ہر مرحلے پر عملی مدد فراہم کرے گا تاکہ بچوں کو اس خاموش خطرے سے بچایا جا سکے۔

ڈاکٹر مریم سرفراز نے ہیلتھ سروسز اکیڈمی کی جانب سے بتایا کہ وہ صرف ڈیٹا جمع کرنے تک محدود نہیں بلکہ ہائی رسک علاقوں میں مسلسل نگرانی، مؤثر پالیسی اور خطرے کے تجزیے کے لیے مربوط نظام وضع کر رہے ہیں۔ انہوں نے صوبائی محکمہ صحت، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کی قیادت کے تعاون کو سراہا۔

اجلاس کے اختتام پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سیسہ زہرخورانی کے خاتمے کے لیے مضبوط حکومتی قیادت، شواہد پر مبنی پالیسیاں، سخت قوانین کے نفاذ اور کمیونٹی کی سطح پر آگاہی اور شمولیت انتہائی ضروری ہے۔ شرکاء نے کہا کہ مربوط اور کثیر شعبہ جاتی ایکشن پلان کے ذریعے ہی اس پیچیدہ اور سنگین صحت عامہ کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے