آرٹیکل 370 کی منسوخی: مقاصد اور کشمیر کی شناخت

newsdesk
4 Min Read

بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا اصل مقصد وادی کشمیر کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے، نہ کہ ترقی یا انضمام۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جو نہ صرف آئینی تقاضوں کے منافی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد تھا، اور اس میں کسی بھی تبدیلی کے لیے ریاست کی آئین ساز اسمبلی کی منظوری ضروری تھی، جو 1957 میں تحلیل ہوچکی تھی۔ اس تناظر میں، مودی سرکار کی یکطرفہ کارروائی نہ صرف آئین کے منافی ہے بلکہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے اصولوں اور کشمیری عوام سے کیے گئے وعدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو ترقی اور انضمام کے طور پر پیش کیا، لیکن زمینی حقائق اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں مسلسل فوجی آپریشنز، سیاحت اور مقامی صنعتوں کی تباہی اور بے روزگاری میں اضافہ، بھارتی سرکار کے ترقیاتی وعدوں کے برعکس ہیں۔ اصل مقصد علاقے میں غیر کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر آبادکاری کو ممکن بنانا تھا۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی حکومت نے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کرائے جن کی بدولت غیر مقامی افراد کو جموں و کشمیر میں رہائش اور زمین خریدنے کے حقوق حاصل ہوگئے۔ اس کے علاوہ وسیع رقبہ فوجی اور صنعتی مقاصد کے لیے مختص کردیا گیا جس نے مقامی آبادی کے لیے جگہ مزید کم کردی۔ یہ پالیسیاں دنیا کے کئی متنازع علاقوں میں آبادیاتی تبدیلی کے لیے اپنائی گئی حکمت عملیوں سے مشابہت رکھتی ہیں، جیسا کہ فلسطین میں بھی دیکھا گیا ہے۔

آبادیاتی تبدیلی محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی ثقافتی، مذہبی اور سیاسی شناخت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے نہ صرف ڈومیسائل قوانین کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی بلکہ اسلامی تعلیمات، اردو زبان اور کشمیر کی سیاسی تاریخ کو بھی نظرانداز یا دبانے کی کوشش کی۔ نئی سیاسی حدبندیوں کے ذریعے مسلم نمائندگی کو کم کرنے کا عمل یقیناً مستقبل میں نئی دہلی کے سیاسی ایجنڈے کو مضبوط کرے گا۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی، شدید فوجی دباؤ اور انٹرنیٹ کی معطلی مقبوضہ آبادی کو مغلوب کرنے کی مثال ہے۔ مقصد صرف علاقہ ہتھیانا نہیں بلکہ اس کی شناخت اور آبادی میں بنیادی تبدیلی لانا بھی ہے تاکہ سیاسی و سماجی مزاحمت کو کمزور کیا جاسکے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری نے بھارت کی اس کھلی آبادیاتی حکمت عملی پر خاموشی اختیار کی ہے اور اپنے معاشی و اسٹریٹجک مفادات کو ترجیح دی ہے۔ یہ خاموشی بھارت کو مزید بے باک بناتی ہے، جب کہ ہر گزرتا دن کشمیریوں کو اپنی قومی شناخت سے دور کرتا جا رہا ہے۔

اس صورت حال میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی آواز بلند کریں اور بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے جوابدہ بنانے کے لیے سیاسی و سفارتی دباؤ ڈالیں۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کا اصل مقصد ترقی نہیں بلکہ کشمیریوں کی شناخت اور آبادیاتی توازن کو بدلنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا بروقت اقدام کرے گی یا یہ تبدیلیاں کشمیر کو محض ایک اور قبضہ شدہ علاقہ بنا دیں گی؟

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے