اجمیر شریف کے سجادہ نشین دیوان سید آل رسول علی خان اور ان کے خاندان نے تحریک پاکستان اور اسلامی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں صوفی مشائخ اور علمائے کرام نے متحد ہوکر برصغیر کے مسلمانوں میں آزاد وطن کے قیام کے لئے جوش و ولولہ پیدا کیا، بالخصوص مسلم لیگ کی حمایت اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ یہ تاریخی کردار آج بھی مذہبی، ملی اور روحانی سطح پر ارکان پاکستان کے لئے مشعل راہ ہے۔
دیوان سید آل رسول علی خان نے اپنی خدمات کا آغاز اللہ کی رضا کے لیے کیا اور ہر قسم کی دنیاوی رکاوٹوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ان کے اخلاص اور روحانی قیادت نے برصغیر بھر سے صوفی مشائخ، سجادہ نشین اور علمائے کرام کو مسلم لیگ کے ساتھ جوڑ دیا۔ ان کی کوششوں سے "پاکستان کا مطلب کیا – لا الہ الا اللہ” جیسے نعرے عام لوگوں کے دلوں کو گرما گئے، اور مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اجمیر شریف میں جون 1946 کو دیوان سید آل رسول علی خان کی صدارت میں منعقد ہونے والی آل انڈیا سنی کانفرنس میں لاکھوں مسلمانوں اور ہزاروں علما ومشائخ نے شرکت کی۔ اس تاریخی اجتماع میں مسلم لیگ کی غیر مشروط حمایت اور پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا۔ نمایاں اولیائے کرام اور سجادہ نشین حضرات نے اپنے مریدین کو اس جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔
انگریز اور بھارتی حکومت کی طرف سے دباؤ کے باوجود دیوان سید آل رسول علی خان نے قائداعظم کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کھل کر مسلم لیگ اور پاکستان کے قیام کی حمایت جاری رکھی۔ آزادی پاکستان کے بعد آپ نے اپنے خاندان سمیت وطن عزیز ہجرت کی، پہلے ملتان، پھر سرگودھا اور بالآخر 1960 میں پشاور منتقل ہوئے۔ وہاں آپ نے جامع مسجد اور دارالعلوم غوثیہ معینیہ کی بنیاد رکھی اور زندگی بھر مذہبی و ملی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپ نے ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کی سرکوبی میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ کا وصال 1973 کو ہوا۔
ان کے بعد ان کے صاحبزادے دیوان سید آل مجتبی علی خان نے بھی اپنے والد کی روش پر چلتے ہوئے تحریک اسلامی اور ملی مقاصد میں حصہ لیا، مسلم لیگ کے جلسوں کی صدارت کی اور دیگر صف اول کے مشائخ کے ساتھ رابطے مضبوط کیے۔ 1990 میں اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب گلشن سلطان الہند اجمیری کمپلیکس کی بنیاد رکھی۔ ان کا وصال 2001 کو ہوا، جس کے بعد ان کے بیٹے دیوان سید آل حبیب علی خان اپنے بزرگوں کی سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان بھر میں بڑے اعراس و اسلامی سرگرمیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ اگلی نسل کے وارث پیرزادہ سید آل وجیہہ معینی اجمیری بھی قومی و مذہبی خدمت کے اس سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج دیوان سید آل رسول علی خان اور دیوان سید آل مجتبی علی خان کے مزارات گلشن سلطان الہند اجمیری کمپلیکس میں مرجع خلائق ہیں، جہاں پاکستان اور بیرون ملک سے عقیدت مند حاضر ہو کر فاتحہ خوانی اور دعائیں کرتے ہیں۔ یوں آج بھی اجمیر شریف کے سجادہ نشینوں کا روحانی، دینی اور قومی فیضان جاری ہے جنہوں نے اپنی زندگی، آسائشیں اور وطن قربان کر کے اسلام اور پاکستان کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا۔
