موسکو فورم میں ڈاکٹر فرقان راؤ کے اہم خیالات

newsdesk
2 Min Read
ڈاکٹر فرقان راؤ نے موسکو فورم جعلی اطلاعات ۳٫۰ میں بعدِ حقیقت کے دور میں مکالمے اور معلوماتی مزاحمت پر بین الاقوامی تبادلے میں حصہ لیا۔

ڈاکٹر فرقان راؤ، مرکز برائے جمہوریت اور ماحولیاتی مطالعات کے انتظامی سربراہ، موسکو میں منعقدہ فورم جعلی اطلاعات ۳٫۰ میں شرکت کے دوران گول میز گفتگو میں اپنے مشاہدات اور تجاویز پیش کیے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عصری مواصلاتی ماحول میں اعتماد کی بحالی اور شفاف معلومات کے فروغ کے بغیر معنی خیز مکالمہ ممکن نہیں۔اس گول میز میں دنیا بھر سے ماہرین اور سوچ رکھنے والے رہنماؤں نے حصہ لیا جن میں فرانس، سلووینیا، میکسیکو اور کئی دیگر ممالک کے مقررین شامل تھے۔ شرکاء نے معلوماتی بہاؤ میں پھیلنے والی غلط رہنمائی اور بعدِ حقیقت کے رجحانات کا تجزیہ کیا اور اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح ہم مضبوط مکالمے اور سماجی مزاحمت قائم کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر فرقان راؤ نے گفتگو کے دوران اس بات کو نمایاں کیا کہ بعدِ حقیقت کے عہد میں زبان اور بیان کے انتخاب کا بڑا عملی اثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گفتگو میں استعمال ہونے والی اصطلاحات، حوالہ جاتی شواہد اور شفافیت کی طرز عمل عوامی اعتماد کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے، اور اسی بنیاد پر معلوماتی مزاحمت کو تقویت دی جا سکتی ہے۔انہوں نے بین الاقوامی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف معاشروں میں مکالمے کے انداز، صحافتی روایت اور شہری شمولیت کے طریقے مختلف ہیں، لہٰذا زبانِ مکالمہ کو مقامی حساسیت اور سچائی کی پاسداری کے ساتھ ڈھالنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی سیاق و سباق کے لیے بھی اس طرح کے عالمی مکالموں سے حاصل ہونے والی بصیرتیں اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔موسکو فورم میں شرکت نے نہ صرف بعدِ حقیقت کے موضوع پر بین الاقوامی سطح پر تبادلۂ خیال کو فروغ دیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ معلوماتی مزاحمت اور معنی خیز مکالمہ قائم کرنے کے لیے مستقل گفت و شنید اور علم کا اشتراک ضروری ہے۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے