پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے کم ہے مگر ملک شدید موسمی خطرات سے دوچار ہے اور کمزور انفراسٹرکچر اکثر قدرتی آفات کو انسانی بحران میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اسی پس منظر میں سندھ کے چھوٹے کاشتکار اپنی بقا اور حقوق کے لیے اعلیٰ سطحی قانونی راستہ اختیار کر رہے ہیں اور انہیں مقامی تنظیم ہینڈز ویلفیئر فاؤنڈیشن کی حمایت حاصل ہے۔قانونی کارروائی جرمنی کی دو بڑی کاربن پیدا کرنے والی کمپنیوں، آر ڈبلیو ای اور ہائڈلبرگ میٹیریلز، کے خلاف دائر کی گئی ہے۔ متاثرہ برادریوں کا مؤقف ہے کہ ان صنعتی ایمیشنز نے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو تیز کیا اور نتیجتاً ۲۰۲۲ کے تباہ کن سیلابوں جیسے واقعات کے امکانات بڑھے جس نے لاڑکانہ اور جیکب آباد کے چھوٹے کسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ابتدائی تحقیقی سروے نے متاثرہ خاندانوں کے معاشی و سماجی نقصان کو دستاویزی شکل دی ہے اور ماحولیاتی سائنس کے ربط سے ان سیلابوں کا تعلق عالمی موسمیاتی تبدیلی سے واضح کیا گیا ہے۔ اس شواہد کی بنیاد پر مقدمے کا دعویٰ یہ ہے کہ بڑے صنعتی یونٹس جو سالانہ بڑے اخراج کرتے ہیں، ان کے ذمہ تلافی اور معاوضے کی اخلاقی و قانونی ذمہ داری بنتی ہے۔اس کوشش میں بین الاقوامی سول سوسائٹی کی شرکت بھی نمایاں ہے، جرمن تنظیمیں میڈیکو انٹرنیشنل اور ای سی سی ایچ آر بھی معاملے میں شامل ہیں، اور مقامی فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر قانونی راہداریوں کو فعال کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرہ خاندانوں کو معاوضے اور انصاف مل سکے۔کیس کا مقصد محض مقامی احکامات تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی مثال قائم کرنا ہے تاکہ بڑے آلودہ کنندہ یا پروفیٹ حاصل کرنے والے ادارے یا تو اپنے اخراج میں کمی کریں یا ان کے باعث متاثرہ کمزور آبادیوں کو مناسب تلافی فراہم کریں۔ اس معاملے کو ماحولیاتی انصاف کے بڑے فریم ورک میں دیکھا جا رہا ہے۔سندھ کے متاثرہ کسانوں کی قانونی جدوجہد ایک وقیعتی پیغام بھی دیتی ہے کہ جو لوگ ماحولیاتی نقصان سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں اس کے نتائج کا حساب دینا ہوگا۔ یہ اقدام ایک حقوقی کوشش ہے نہ کہ فلاحی اپیل، اور اس کا مقصد مستقبل میں کارپوریٹ جوابدہی کو تقویت دینا ہے تاکہ کمزور طبقے کے حقوق محفوظ رہیں۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں۔
