ملکی سطح پر دو ہزار چوبیس میں تیس ہزار سے زائد صنفی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے جنھوں نے معاشرتی تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ ان رپورٹس سے واضح ہے کہ خواتین اور دیگر متاثرہ افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کا دائرہ بڑا ہے اور رپورٹنگ میں بے حسی یا خاموشی کے بعد بھی متاثرین نے شکایات درج کروانے کی ہمت دکھائی۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں مقدمات کی تعداد سب سے زیادہ درج ہوئی، جس سے وہاں صورتحال کی سنگینی عیاں ہوتی ہے۔ اس رجحان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شکایات درج ہونے کے بعد انصاف تک رسائی ایک الگ مسئلہ بنی ہوئی ہے اور معاملات کی نوعیت، سماجی رکاوٹیں اور قانونی عمل متاثرین کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔دوسری طرف بلوچستان میں ایسے کیسز کے باوجود سزاؤں یا مؤثر فیصلوں کی عدم موجودگی نے عدالتی خلا کی نشاندہی کی ہے۔ سزا نہ ملنے یا مقدمات کے حل میں تاخیر نے متاثرہ افراد کی بحالی اور اعتماد دونوں کو نقصان پہنچایا ہے اور صنفی تشدد کے خلاف نظام انصاف کی کمزوری کو نمایاں کیا ہے۔یہ اعداد و شمار صنفی تشدد کے خلاف موثر حکمت عملی، شنوائی کے میکانزم اور متاثرین کے لیے قابلِ اعتماد حفاظتی اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں، مقامی انتظامیہ اور سماجی شعبے کو مشترکہ کوششوں سے عدالتی عمل کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ رپورٹ ہونے والے کیسز انصاف میں تبدیل ہوں اور صنفی تشدد کے متاثرین کو بحالی کا یقین دلایا جا سکے۔
