
ای چالان سسٹم سے زیادہ ای کرائم کنٹرول سسٹم کی ضرورت ہے
تحریر: ظہیر احمد اعوان
دنیا تیزی سے ڈیجیٹل ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جدید ریاستیں اپنی ٹیکنالوجی کو عوام کی سہولت، سلامتی اور خوشحالی کے لیے بروئے کار لا رہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی عوام کی خدمت کے بجائے ان پر بوجھ بن رہی ہے۔ملک میں "ای چالان” سسٹم، ٹریفک جرمانے اور کیمروں کی نگرانی کے نام پر عام شہری کو سزا دینے کا عمل تو تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہا ہے، مگر دوسری طرف "ای کرائم کنٹرول سسٹم” یعنی عوام کے جان، مال، عزت، اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
پاکستان کے عام شہری کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی، بےروزگاری، بدعنوانی اور عدم تحفظ ہے۔ لوگ چوری، ڈکیتی، قبضے، لڑائی جھگڑے، قتل یا ہراسگی جیسے جرائم کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے بھی سفارش، سفارش اور رشوت کے چکر میں خوار ہو جاتے ہیں۔ اسپتالوں میں علاج کے لیے دھکے، تھانوں میں ذلت، اور دفاتر میں رشوت — یہ ایک عام آدمی کی روزمرہ کی کہانی ہے۔ڈیجیٹلائزیشن کا مطلب سزا نہیں، سہولت ہونا چاہیےدنیا بھر میں ڈیجیٹل نظام عوام کو سہولت دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ برطانیہ، جاپان، متحدہ عرب امارات، ترکی، سعودی عرب اور ملائیشیا میں ای گورننس کا مقصد عوام کی زندگی آسان بنانا ہے۔ شہریوں کو آن لائن سہولیات، فوری انصاف، شفاف ٹیکس نظام اور جرائم سے تحفظ دیا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں ای چالان تو چند منٹ میں آجاتا ہے، مگر کسی شہری کی جان و مال پر حملہ ہو جائے تو پولیس اور نظامِ انصاف ہفتوں یا مہینوں جاگتا نہیں۔ڈیجیٹل سسٹم کا اصل مقصد عوامی فلاح ہے، نہ کہ ان پر جرمانے اور سزا کا بوجھ بڑھانا۔ حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے “ای کرائم کنٹرول سسٹم” نافذ کرے تاکہ شہری آن لائن جرائم، چوری، ہراسگی، قبضہ اور بدعنوانی کی شکایت فوری درج کر سکیں، اس کی نگرانی ہو، اور انصاف وقت پر ملے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9 کے مطابق: “کسی شخص کو اس کی جان یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے قانون کے مطابق۔”
اسی طرح آرٹیکل 25 واضح کرتا ہے کہ: “تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں۔”لیکن ہمارے ہاں قانون صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کے لیے نہیں۔ جب نظام انصاف طبقاتی ہو جائے تو ریاست میں اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
اسلامی ریاست کی بنیاد عدل پر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جب قحط آیا تو عوام پر سزائیں معطل کر دی گئیں، تاکہ لوگ مشکل وقت میں آسانی محسوس کریں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: “معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے، مگر ظلم پر نہیں۔”عوامی معیارِ زندگی اور ٹیکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں پہلے عوام کو سہولت دیتی ہیں، پھر ٹیکس وصول کرتی ہیں۔اسکینڈینیوین ممالک (سویڈن، ناروے، ڈنمارک) میں شہری خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں، کیونکہ بدلے میں انہیں صحت، تعلیم، انصاف اور تحفظ کی مکمل ضمانت ملتی ہے۔
جبکہ پاکستان میں عام آدمی ماچس سے لے کر دودھ تک ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے، مگر سہولت کے بجائے سزا ملتی ہے۔اگر حکومت واقعی ڈیجیٹل ترقی چاہتی ہے تو پہلے عوام کو ریلیف دینا ہوگا — روزگار، انصاف، صحت، اور تحفظ کے میدان میں۔ اس کے بعد ہی عوام خود بخود ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے۔ڈیجیٹل کیمرے، ای چالان، اور جرمانے تب تک بے معنی ہیں جب تک ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو اولین ترجیح نہیں دیتی۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ فوری طور پر “ای کرائم کنٹرول سسٹم” قائم کرے، جہاں ہر شہری اپنی شکایت آن لائن درج کر سکے اور فوری کارروائی ہو۔قانون کا اصل مقصد خوف پیدا کرنا نہیں بلکہ تحفظ دینا ہے۔اگر ریاست اپنے شہریوں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرے گی تو ای چالان نہیں، بلکہ عوام کا اعتماد ہی سب سے بڑا چالان بن جائے گا۔
