اخلاقی اور سماجی اصلاح کی ضرورت

newsdesk
4 Min Read
پاکستان میں معاشرتی زوال کی جڑ اخلاقی بحران ہے۔ فردی کردار اور تعلیم کے ذریعے عملی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔

ہم کب بدلیں گے؟ اصلاحِ معاشرہ کی ضرورت

تحریر: قیصر خان

قومیں اداروں سے نہیں، کردار سے بنتی ہیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے انفرادی احتساب ناگزیرہ
ہم دوسروں سے تبدیلی کی امید رکھتے ہیں مگر خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں، یہی ہمارے معاشرتی زوال کی جڑ ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اگر غیر جذباتی انداز میں نظر ڈالی جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی نہیں اخلاقی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن اپنی جگہ مگر ان سب کی جڑ انسانی رویّوں کی بگاڑ میں ہے۔ ریاست کے ادارے تبھی مضبوط ہوتے ہیں جب قوم کا کردار مضبوط ہو، اور قوم کا کردار تب بنتا ہے جب فرد اپنے قول و عمل میں سچائی اور دیانت کو مقدم رکھتا ہےہم بحیثیت قوم ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ ہم دین کی بات کرتے ہیں مگر دیانت سے خالی ہیں، انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں مگر دوسروں کے حق میں انصاف نہیں چاہتے۔ سڑک پر سگنل توڑنے والا، لائن توڑنے والا، کرایہ چوری کرنے والا، جعلی رسید بنانے والا یہ سب کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے، یہ ہم ہی ہیں ہم معاشرے کی وہ اکائیاں ہیں جو اجتماعی طور پر اپنے ہی ملک کے نظام کو کھوکھلا کر رہی ہیں گزشتہ چند برسوں میں ایک خطرناک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ اخلاقی زوال کو "نارمل” سمجھ لیا گیا ہے دفاتر میں رشوت کو "چائے پانی” کا نام دے دیا گیا، جھوٹ کو "چالاکی” سمجھا جانے لگا، اور وعدہ خلافی کو "ضرورت” قرار دیا جانے لگا۔ یہی وہ رویّے ہیں جنہوں نے معاشرتی اعتماد کو تباہ کیااصلاحِ معاشرہ کے لیے کسی انقلابی نعرے یا بڑے منصوبے کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہےسب سے پہلے تعلیم میں کردار سازی پر زور دینا ہوگا۔ نصاب میں اخلاقیات، معاشرتی ذمہ داری، اور شہری شعور کو شامل کرنا وقت کی ضرورت ہےدوسرا، قانون کی یکساں عملداری۔ جب طاقتور اور کمزور کے لیے الگ اصول ہوں تو انصاف کا تصور ختم ہو جاتا ہےتیسرا، میڈیا کا کردار۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کا میڈیا محض سنسنی نہیں بلکہ شعور بیدار کرےچوتھا، مذہبی و سماجی قیادت کی ذمہ داری۔ خطبات اور تقریروں میں حقیقی اخلاقی تربیت پر زور دیا جائے، نہ کہ محض سیاسی نعروں پر معاشرتی اصلاح کی شروعات گھر سے ہوتی ہے۔ ماں باپ جب اپنے بچوں کے سامنے سچ بولنے اور امانت داری کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں، تو وہی نسل آگے چل کر ایماندار شہری بنتی ہے اسی طرح، اگر ہم دفتر، بازار اور گلی میں قانون کا احترام کریں تو یہی معمولات ایک اجتماعی تبدیلی کی بنیاد بن سکتے ہیں یاد رکھیے، قومیں کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے اندرونی زوال سے تباہ ہوتی ہیں اگر ہم واقعی ایک مضبوط پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویّے، گفتگو اور کردار کو درست کرنا ہوگا۔ اصلاحِ معاشرہ کا آغاز قومی نعرہ نہیں بلکہ انفرادی عہد ہونا چاہیےتبدیلی کا سفر دوسروں سے نہیں، خود سے شروع کیجیے کیونکہ معاشرے وہی بدلتے ہیں جن کے افراد خود بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے