عائشہ رضا، جو لاہور سے تعلق رکھتی ہیں اور خود پولیو متاثرہ ہیں، ملک بھر میں چلنے والی پولیو مہم میں بطور ویکسینیٹر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ اُن چار لاکھ رضا کاروں میں شامل ہیں جنہیں عالمی ادارۂ صحت کی حمایت حاصل ہے اور یہ ٹیمیں بچوں کو حفاظتی ٹیکے پہنچانے کے لیے دور دراز علاقوں تک جاتی ہیں۔مہم کے دوران چلنا میرے لیے آسان نہیں ہوتا مگر میں پاکستان کے بچوں کے لیے امید اور ثابت قدمی لانے کا موقع ضائع نہیں کر سکتی، عائشہ نے بتایا۔ ان کا یہ عزم پولیو مہم کی سنگینی اور محنت کو واضح کرتا ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ متاثرہ افراد بھی سماجی خدمت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔پولیو مہم کا اہتمام اور تعاون عالمی ادارۂ صحت، مشرقِ وسطیٰ علاقائی دفتر، پاکستان پولیو خاتمہ مہم، اقوامِ متحدہ پاکستان، روٹری اور وزارتِ قومی صحت، ضوابط اور ہم آہنگی اسلام آباد کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے۔ عائشہ جیسے ویکسینیٹرز مقامی برادریوں میں اعتماد پیدا کرتے ہیں اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔پولیو مہم میں شامل کارکنان کی محنت اور عائشہ جیسی متاثرہ فرد کی وابستگی اس بات کی علامت ہے کہ اجتماعی کوشش کے ذریعے بیماری کے خاتمے کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مقامی سطح پر یہ کوششیں بچوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے اور پولیو کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
