سینیٹرز نے وفاق اور صوبوں کے درمیان “خطرناک عدم رابطہ” کو قومی ماحولیاتی پالیسی کی ناکامی قرار دے دیا

4 Min Read

سینیٹرز نے وفاق اور صوبوں کے درمیان “خطرناک عدم رابطہ” کو قومی ماحولیاتی پالیسی کی ناکامی قرار دے دیا
ندیم تنولی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس ایک غیر معمولی دو جماعتی برہمی میں بدل گیا، جب ارکانِ پارلیمان نے وفاقی حکومت پر صوبوں سے ہم آہنگی میں ناکامی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’’خطرناک عدم رابطہ‘‘ قرار دیا جو پاکستان کی ماحولیاتی پالیسی کو مفلوج کر رہا ہے۔ اجلاس دراصل برازیل میں ہونے والی آئندہ COP-30 کانفرنس کی تیاریوں کے جائزے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن یہ وفاقی ماحولیاتی بیوروکریسی کے خلاف سخت ترین تنقید کے سیشن میں تبدیل ہوگیا۔

ارکان نے کہا کہ سیلابی بحالی، خشک سالی کے انتظام اور ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں کی اصل ذمہ داری صوبوں پر ہے، مگر انہیں پالیسی سازی میں شامل نہیں کیا جاتا۔ رابطے کا انحصار صرف بیوروکریٹس کے درمیان خطوط کے تبادلے تک محدود ہے، جبکہ عوامی نمائندوں کے درمیان کوئی براہ راست مشاورت نہیں ہوتی۔ ایک سینیٹر نے کہا کہ وزارت کا موجودہ انداز ’’ماحولیاتی گورننس کو محض فائل ورک تک محدود کر چکا ہے‘‘ جبکہ دوسرے نے کہا کہ ’’الگ تھلگ رہنے کی عادت‘‘ نے وفاق اور صوبوں کے تعلقات کو ایک ایسے دائمی بحران میں بدل دیا ہے جو ہر عالمی ماحولیاتی کانفرنس سے قبل دوبارہ سر اٹھا لیتا ہے۔

کمیٹی کا صبر اس وقت جواب دے گیا جب وزارت کے حکام نے اپنی کارکردگی کا دفاع چیف سیکریٹریز کے ساتھ ’’باقاعدہ مراسلت‘‘ کے حوالے سے کیا۔ ارکانِ سینیٹ نے وضاحت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی خط و کتابت سیاسی مکالمے کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ ارکان نے نشاندہی کی کہ جب ماحولیاتی فنڈز کے نام پر بین الاقوامی امداد اسلام آباد پہنچتی ہے تو اس کے ثمرات صوبوں تک شاذونادر ہی پہنچتے ہیں، بالخصوص وہ علاقے جو 2022 کے تباہ کن سیلاب سے اب تک بحالی کے منتظر ہیں۔

بحث کے دوران یہ واضح ہوا کہ ایک خطرناک رجحان جنم لے چکا ہے — وفاقی وزارتیں بیرونِ ملک ماحولیاتی وعدے کرتی ہیں، مگر صوبائی حکومتیں نہ صرف لاعلم رہتی ہیں بلکہ فنڈز اور نمائندگی سے بھی محروم رہتی ہیں۔ سینیٹرز نے خبردار کیا کہ یہ ’’عدم ہم آہنگی‘‘ پاکستان کی ساکھ کو COP-30 میں نقصان پہنچا سکتی ہے، جہاں ملک کو ماحولیاتی مزاحمت، موافقت اور نقصان و ازالہ (Loss and Damage) کے حوالے سے ایک متحد قومی حکمتِ عملی پیش کرنا ہے۔

کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمٰن نے واضح الفاظ میں کہا کہ ماحولیاتی ایکشن صرف بیوروکریسی سے ممکن نہیں۔ ’’یہ ایک سیاسی عمل ہے،‘‘ انہوں نے کہا، اور وزارت سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف سرکاری افسروں تک محدود رہنے کے بجائے صوبائی وزراء کو بھی پالیسی سازی میں شامل کرے۔ کمیٹی نے وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کو ہدایت دی کہ وہ پارلیمان کو ایک پل کے طور پر استعمال کرے اور COP-30 سے قبل تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ براہِ راست مشاورت کرے۔

کمیٹی نے اس نتیجے پر پہنچ کر سفارش کی کہ موجودہ رابطہ فریم ورک ناکافی اور غیر مؤثر ہے، اور ایک مستقل بین الحکومتی ماحولیاتی کونسل قائم کی جائے جس میں وفاقی و صوبائی سطح کے سیاسی نمائندے شامل ہوں۔ سینیٹرز نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان آئندہ عالمی ماحولیاتی مذاکرات میں منقسم، کمزور اور غیر تیّار ہو کر شریک ہوگا — اور اپنے قومی مفادات کا بھرپور دفاع نہیں کر پائے گا۔

News Link: Push for Climate Coordination Ahead of COP30 – Peak Point

Share This Article
ندیم تنولی اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہیں جو پارلیمانی امور، موسمیاتی تبدیلی، گورننس کی شفافیت اور صحت عامہ کے مسائل پر گہرائی سے رپورٹنگ کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے