موبائل کے عادی معاشرے کا منظرنامہ

newsdesk
7 Min Read
موبائل فون کی بڑھتی ہوئی عادت نے خاندانی رشتوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر کی ہے، اب تعلیمی اور سماجی اقدامات ضروری ہیں۔

موبائل والی نئی نسل
تحریر: ظہیر احمد اعوان
اگر ہم موبائل فون کی ایجاد سے پہلے اور بعد کے انسانی معاشرے کا تقابلی جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جیسے بدل کر کچھ اور ہی بن گئی ہے۔ وہ زمانہ جب لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، دوست، محلے دار سب مل بیٹھتے، باتیں کرتے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ رابطے مضبوط تھے، تعلقات گہرے، اور انسانی رشتے سچے۔اس وقت نہ سوشل میڈیا تھا، نہ ورچوئل ملاقاتیں، لیکن انسانی دلوں میں محبت، خلوص، احساس اور قربت وافر مقدار میں موجود تھی۔ گاؤں، قصبے، گلیاں، محلے — سب میں خبر تیزی سے پھیلتی مگر بغیر کسی انٹرنیٹ یا فون کے۔ بچے اپنی چھٹیوں میں نانا نانی یا دادا دادی کے گھروں جایا کرتے، بزرگوں سے کہانیاں سنتے، اور رشتوں کی بنیاد محبت پر ہوتی۔پھر دنیا میں ایک حیران کن ایجاد نے قدم رکھا موبائل فون موبائل نے رابطوں کو آسان بنایا، فاصلے سمیٹے، دنیا کو ایک “گلوبل ویلیج” میں بدل دیا۔
1973 میں موٹرولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر (Martin Cooper) نے پہلا موبائل فون ایجاد کیا، اور 1983 میں پہلا کمرشل موبائل فون (Motorola DynaTAC 8000X) لانچ ہوا۔ اس وقت یہ ایک حیران کن ایجاد سمجھی گئی جس نے انسانوں کو لمحوں میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔لیکن وقت کے ساتھ یہی سہولت ایک لت (addiction) میں بدل گئی۔ آج موبائل فون انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ انسان خود موبائل کے قابو میں ہے۔موجودہ نئی نسل بچے، نوجوان، خواتین، حتیٰ کہ بزرگ بھی سبھی اس “موبائل نشے” میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اب ہر گھر میں، ہر دفتر، سکول، ہسپتال، حتیٰ کہ خوشی اور غم کے موقع پر بھی لوگ ایک دوسرے سے زیادہ اپنے موبائل فون سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں والدین، بچے، بہن بھائی موجود ہوتے ہیں لیکن آپس میں بات چیت وائٹس ایپ گروپ کے ذریعے ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ موبائل سے آدھی ملاقات ہو جاتی ہے، لیکن آج تو پوری ملاقات ہی موبائل پر ہوتی ہے۔موبائل فون نے جہاں بے پناہ سہولتیں پیدا کیں، وہیں اس کے منفی اثرات بھی سامنے آئے —
خاندانی نظام کمزور ہوا،
سماجی تعلقات مصنوعی ہوگئے،
اخلاقی انحطاط بڑھا،
ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور تنہائی عام ہوگئی،
بچوں میں توجہ اور یادداشت کی کمی پیدا ہوئی،
اور نیند کی خرابی ایک معمول بن گئی۔دنیا بھر میں محققین اب موبائل کے “Overuse Syndrome” کو ایک عالمی نفسیاتی بحران قرار دے رہے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، 2024 میں دنیا بھر میں تقریباً 38% نوجوان “ڈیجیٹل ایڈکشن” یا “اسکرین ڈیپنڈینسی” کا شکار ہیں۔
جاپان میں حکومت نے “ڈیجیٹل ڈیٹاکس” پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو ہفتے میں ایک دن بغیر موبائل گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
چین نے 2023 میں قانونی طور پر بچوں کے لیے اسکرین ٹائم کی حد مقرر کی 18 سال سے کم عمر نوجوان روزانہ 2 گھنٹے سے زیادہ اسکرین استعمال نہیں کر سکتے۔فرانس نے پرائمری اسکولوں میں موبائل کے استعمال پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔امریکہ میں بڑی کمپنیوں اور تعلیمی اداروں نے “No Phone Zones” متعارف کرائے ہیں تاکہ سماجی تعلقات کو بحال کیا جا سکے۔سعودی عرب اور ترکی نے تعلیمی اداروں میں “ڈیجیٹل ہیلتھ ایجوکیشن” کو نصاب کا حصہ بنا دیا ہے تاکہ طلبا کو موبائل کے مثبت اور منفی استعمال کی سمجھ دی جا سکے۔پاکستان میں بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ آج کا بچہ کتاب کے بجائے موبائل کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ والدین سکون کے لیے بچے کو موبائل دے دیتے ہیں لیکن یہی چیز بعد میں ان کے لیے ایک خاموش تباہی بن جاتی ہے۔ نوجوان نسل عملی زندگی، مطالعہ، کھیلوں اور خاندانی محفلوں سے دور ہو چکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، تعلیمی ادارے، میڈیا، والدین اور معاشرہ مل کر ڈیجیٹل نظم و ضبط (Digital Discipline)کے لیے اقدامات کریں۔

  • اسکولوں میں “ڈیجیٹل ہیلتھ ایجوکیشن” شامل کی جائے۔
  • گھروں میں “فون فری آورز” طے کیے جائیں۔
  • بچوں کے لیے “ریڈنگ اینڈ آؤٹ ڈور ایکٹیویٹیز” کو فروغ دیا جائے۔
  • میڈیا پر موبائل کے منفی اثرات پر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
  • موبائل کمپنیوں کو بچوں کے لیے “سیف موڈز” لازمی بنائے جائیں۔
    یاد رکھیں ٹیکنالوجی اگر کنٹرول میں ہو تو نعمت ہے، لیکن اگر انسان ٹیکنالوجی کے قابو میں آ جائے تو وہ عذاب بن جاتی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:“اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو”(سورۃ البقرہ، آیت 143)یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ امتِ مسلمہ کا امتیازی وصف ہی اعتدال اور توازن ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا:“تم میں سے بہترین وہ ہے جو میانہ روی اختیار کرے”
    (سنن ابن ماجہ)موبائل فون بلاشبہ ایک عظیم ایجاد ہے، مگر اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ہر چیز کا استعمال ضرورت کے مطابق ہو۔ جب ہم ٹیکنالوجی کا اعتدال کے ساتھ، مثبت اور مفید مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے نعمت ہے، لیکن جب اس کا بے جا استعمال کیا جائے تو یہی سہولت انسان کے اخلاق، تعلقات اور ذہنی سکون کو نقصان پہنچاتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم خود بھی توازن اختیار کریں اور نئی نسل کو اس کی تعلیم دیں تاکہ ہماری خاندانی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار محفوظ رہ سکیں۔
Share This Article
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے