ٹماٹر، سبزیاں، اشیائے خوردونوش قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ گراں فروشی!انتظامیہ کا کردار
تحریر: ظہیر احمد اعوان
گراں فروشی، ناجائز منافع خوری اور جعل سازی اس وقت ہمارے معاشرے کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ سال کے بارہ مہینے سبزیوں، پھلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے عوام الناس کو سخت پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں گندم، گنا، مکئی، چاول، پھل اور سبزیاں وافر مقدار میں پیدا کی جاتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے انتظامی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ نعمت عوام کے لیے آسانی کے بجائے بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ہمارے ہاں محکمہ زراعت اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ موجود ہونے کے باوجود ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سالانہ اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود جدید کاشتکاری، اسٹوریج، یا قیمتوں کے توازن کے لیے کوئی جامع نظام نہیں بنایا گیا۔ دوسری جانب منافع خور مافیا اور ذخیرہ اندوز من مرضی کی قیمتیں مقرر کر کے عوام سے ناجائز منافع کما رہے ہیں۔ انتظامیہ کی کمزور گرفت اور موثر قانونی کارروائیوں کی کمی کی وجہ سے یہ عناصر دن بدن طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں زرعی منصوبہ بندی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے خوراک کی قیمتوں کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہالینڈ، جاپان،اور چین نے جدید ہائڈروپونک اور گرین ہاؤس فارمنگ کے ذریعے سال کے بارہ مہینے سبزیاں اور پھل اگانے کا نظام بنا لیا ہے۔ وہاں ڈرون اور مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے زمین کی زرخیزی، پانی کی ضرورت، اور پیداوار کی پیشگوئی کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف مہنگائی کنٹرول میں رہتی ہے بلکہ عوام کو تازہ اور سستی اشیاء با آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔یورپ میں زرعی قیمتوں کی نگرانی کے خودکار نظام (Price Monitoring Systems) قائم ہیں، جہاں کسان، تاجر اور صارف تینوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں Federal Trade Commission ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے۔ بھارت نے بھی ’’ڈیجیٹل ایگریکلچر مشن‘‘ کے ذریعے زراعت میں جدید ڈیٹا اینالسس سسٹم متعارف کرایا ہے جس سے اجناس کی قیمتیں اور پیداوار دونوں کنٹرول میں آ رہی ہیں۔پاکستان میں اگر حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ زرعی ایمرجنسی نافذ کر کے ایک جامع قومی پالیسی بنائی جائے۔ تمام صوبوں میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کو فروغ دیا جائے۔پرائس اینڈ کوالٹی کنٹرول کمیٹیاں فعال کی جائیں، اور آن لائن شکایات مراکزقائم کیے جائیں تاکہ عوام براہ راست گراں فروشی یا ذخیرہ اندوزی کی شکایات درج کرا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سخت قانونی سزائیں اور جرمانے متعین کیے جائیں تاکہ ناجائز منافع خور عناصر کو روکا جا سکے۔وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کو ترجیح دے۔ اگر انتظامیہ فعال ہو، ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے اور عوامی شمولیت یقینی بنائی جائے تو مہنگائی پر قابو پانا ناممکن نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے صرف نیت، منصوبہ بندی اور شفافیت سے ہم نہ صرف اپنی عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں بلکہ دنیا کے لیے زرعی ماڈل بھی بن سکتے ہیں۔
سبزیوں اور خوراک کی قیمتوں میں بے قابو اضافہ
کوئی تبصرہ نہیں ہے۔
