محبت، عشق، پیار اور پسند کی شادی — اسلامی اور معاشرتی نقطۂ نظر
تحریر: ظہیر احمد اعوان
اسلامی خاندانی نظام ایک مربوط، مقدس اور معاشرتی توازن قائم رکھنے والا نظام ہے۔ اس میں ہر رشتے کو مقام اور وقار دیا گیا ہے۔ ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہر ایک کے حقوق اور عزت کو شرعاً مخصوص حیثیت دی گئی ہے تاکہ معاشرہ امن، ہمدردی اور شرم و حیا کے پابند رہ سکے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
“اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔”(سورۃ الروم: 21)
یہ آیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ نکاح اور خاندانی رشتے اللہ کی طرف سے رحمت اور سکون کا ذریعہ ہیں، نہ کہ صرف سماجی ادارے۔ اسلام نے تعلقات کو حدودِ شریعت میں رکھ کر ان کی پاکیزگی اور استحکام کو یقینی بنایا ہے۔حدیثِ نبوی ﷺ میں آیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، اور مؤمن اس کی زبان و ہاتھ سے دوسرے مؤمن محفوظ رکھتا ہے۔ یہ تعلیمات ہمیں خاندانی احترام، رواداری اور عفت و حیا کی اہمیت سکھاتی ہیں۔ (حدیثِ نبوی ﷺ)آج کے دور میں موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے معلومات تک آسان رسائی فراہم کی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے غلط اور بےجا استعمال نے خاندانی نظام پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ نوجوان نسل آن لائن دوستیاں بنا کر جلد بازی میں جذباتی فیصلے کر لیتی ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔پسند کی شادی اور عشقِ اُولیٰ جیسے معاملات میں اسلام نے والدین کی مشاورت، اخلاقی تقاضوں اور شرعی حدود کو لازمی قرار دیا ہے۔ پسند کی شادی کی اجازت اس وقت تک محفوظ اور جائز ہے جب وہ شریعت اور معاشرتی اقدار کے دائرے میں ہو، والدین اور خاندان کے حقوق کا تحفظ برقرار رہے، اور انتخاب عقل و شرع کی بنیاد پر ہو۔بدقسمتی سے کئی بار نوجوان لڑکیاں گھر سے ناراض ہو کر یا بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتی ہیں۔ ان میں سے بعض کو بعد میں دھوکہ، بلیک میلنگ یا جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی رشتہ مفاہمت اور خلوص کے بغیر قائم ہوتا ہے تو اس کے بنتے نہ بننے کے باعث زندگی برباد ہو سکتی ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف ان افراد کی ذاتی زندگی تباہ کرتے ہیں بلکہ خاندان اور معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بننے والی بے بنیاد دوستیاں، جھوٹی محبت کے پروفائلز، اور عارضی شہوات اکثر نوجوانوں کو فریب میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اس کے خطرات میں بلیک میلنگ، انتقاماً منظر عام پر آنے والی نجی ویڈیوز، اور تعلقات کے بد انجام شامل ہیں۔ ان حقیقی نتائج نے کئی گھر بکھیر دیے اور بعض جگہ تو نوجوان خواتین کو شدید ذہنی اذیت اور خودکشی تک لے گئے۔
اسلام اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے اور حیا، شائستگی اور اخلاقی حدود کو مستقل طور پر فروغ دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں شرم و حیا کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے اور مناسب برتاؤ کی تاکید بارہا ملتی ہے۔ نکاح کو اللہ نے محبت و رحمت کا پختہ رشتہ قرار دیا ہے، اس لیے محبت جب شرعی اور معاشرتی حدود میں ہو تو وہ نعمت ہے، اور جب حد سے باہر جائے تو معاشرتی بربادی کا سبب بنتی ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے چند عملی سفارشات ضروری ہیں
- والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ساتھ دوستانہ مگر باوقار روابط قائم کریں، ان کے ارادوں اور مسایل کو سمجھیں، اور بلا ضرورت مخالفت کے بجائے رہنمائی فراہم کریں۔
- تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت، فرائضِ خاندانی اور سوشل میڈیا کے محفوظ استعمال کی تربیت کو لازمی طور پر نصاب میں شامل کیا جائے۔
- نوجوانوں کو آن لائن خطرات، بلیک میلنگ اور ڈیجیٹل پرائیویسی کے مسائل سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ ذمہ دارانہ برتاؤ اختیار کریں۔
- اگر پسند کی شادی ہو رہی ہے تو والدین کی مشاورت، خاندان کی شرکت اور شریعت کی پیروی کو یقینی بنایا جائے تاکہ شادی مضبوط اور پائیدار ہو۔
- قانون سازی اور عدالتی نظام کو ایسے جرائم — بلیک میلنگ، غیر قانونی جنسی ویڈیوز کی اشاعت، اور ڈیجیٹل استحصال کے خلاف سخت کارروائی یقینی بنانی چاہیے تاکہ مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے۔
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ محبت، احترام اور شادی کے مقدس رشتے کو اسلام نے انصاف، شرافت اور ذمہ داری کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ حقیقی محبت وہ ہے جو خاندان، وقار اور اخلاقی دیانتداری کے ساتھ پروان چڑھے۔ اگر ہم اپنے سماجی اور مذہبی اصولوں کو قائم رکھیں، اور نئی نسل کو انتہائی احتیاط و شعور کے ساتھ تیار کریں تو ہمارا خاندانی نظام مضبوط رہے گا اور معاشرہ خوشحال و محفوظ رہے گا۔
