چوبیس سالہ باکسر عثمان وزیر نومبر کے آخری ہفتے ۲۰۲۵ میں لاہور میں اپنے ڈبلیو بی سی او پی بی ایف سلور ٹائٹل کی دفاع کے لیے گھر پر واپس آئیں گے۔ یہ مقابلہ نہ صرف عثمان وزیر کے کیریئر کے لیے اہم قدم ہوگا بلکہ پاکستان کی باکسنگ کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کا ایک اور موقع بھی تصور کیا جا رہا ہے۔عثمان وزیر نے سالِ رواں میں تھائی لینڈ میں منعقدہ فائٹ میں انڈونیشیا کے درجہ بندی والے باکسر اسٹیوی فرڈینینڈس کو ہرا کر یہ ٹائٹل جیتا تھا۔ اس مقابلے میں انہوں نے دسویں راونڈ میں وقت دو منٹ بائیس سیکنڈ پر ناک آؤٹ کر کے فتح سمیٹی تھی۔ یہ میچ براہِ راست ڈی اے زی این پر نشر ہوا اور ایک سو اڑسٹھ ممالک میں دیکھا گیا، جس نے ان کے عروج میں اضافہ کیا۔پیشہ ورانہ ریکارڈ میں عثمان وزیر سترہ جیت بغیر ہار کے لے کر میدان میں آ رہے ہیں اور وہ اٹھارہ صفر کا ہدف حاصل کرنے کے عزم کے ساتھ تیاریاں کر رہے ہیں۔ "میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے کے لیے پُراعتماد ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ وطن کی مٹی پر تاریخ رقم ہو اور پاکستانی پرچم فخر سے لہرا جائے”، ایسی امیدیں ان کے بیان میں واضح ہیں۔ان کی تیاریاں کوچ اور ٹیم کی رہنمائی میں بھرپور ہیں اور ان کے ٹرینرز سخت محنت کر رہے ہیں تاکہ کمزوریوں کی اصلاح ہو اور بہترین کارکردگی دکھائی جائے۔ عثمان وزیر کی حالیہ بین الاقوامی لڑائیوں میں مالی اور طبی معاونت ایکٹیوٹ نامی ادارے نے فراہم کی، جس کے سربراہ رضوان آفتاب احمد ہیں جو نیشنل ہسپتال ڈی ایچ اے لاہور کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ایکٹیوٹ کی حمایت نے نہ صرف مالی بوجھ کم کیا بلکہ عائلی طبی سہولیات کے ذریعے اُن کے حوصلے کو بھی بڑھا دیا۔عثمان وزیر کا سفر استور، گلگت بلتستان سے شروع ہوا جہاں محدود کھیل کے وسائل کے باعث انہوں نے ابتدا میں فٹ بال کے ٹرائلز کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا، مگر قسمت نے انہیں ۲۰۱۵ میں مقامی باکسنگ کلب میں باکسنگ کی طرف مائل کیا۔ ابتدائی سال میں ہی وہ اسلام آباد چیمپیئن بنے اور ۲۰۱۷ میں ایچ ای سی آل پاکستان چیمپیئن شپ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ ۲۰۱۸ کے پنجاب گیمز میں ان کی کارکردگی نے برطانوی پاکستانی باکسر عامر خان کی توجہ حاصل کی اور انہیں عامر خان باکسنگ اکیڈمی اسلام آباد میں تربیت کے لیے مدعو کیا گیا۔پیشہ ورانہ میدان میں عثمان وزیر نے ۲۰۱۹ میں دبئی میں дебیو کیا اور ۲۰۲۱ تک ڈبلیو بی سی مڈل ایسٹ کا ٹائٹل اپنے نام کر چکے تھے۔ ۲۰۲۲ میں وہ اولین پاکستانی باکسر بنے جنہوں نے ڈبلیو بی او ورلڈ یوتھ ٹائٹل جیتا اور اسی سال انہیں ڈبلیو بی اے ایشیا ویلٹر ویٹ کا اعزاز بھی ملا۔ ان کے مقابلوں میں بھارت، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، تنزانیہ اور ملائیشیا کے حریف شامل رہے ہیں، جس سے ان کے بین الاقوامی تجربے میں اضافہ ہوا ہے۔گھر کے منظر نامے میں یہ مقابلہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ عثمان وزیر نہ صرف اپنے ذاتی ریکارڈ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے بلکہ ملک کے نام کا وقار بڑھانے کی بھی نیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کمزوریوں پر کام کر رہے ہیں اور امید ہے کہ لاہور کے شائقین ایک یادگار میچ دیکھیں گے جس میں عثمان وزیر اپنے عزم کو ثابت کریں گے۔
