گجرات میں جمعیتِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی کال پر غزہ کے عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو پریس کلب سے شروع ہو کر کتھری چوک پر ختم ہوئی۔ اس ریلی میں مرد، خواتین، نوجوان اور بزرگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور احتجاج غزہ میں دو سالہ جارحیت کے خلاف شدید ردِ عمل کا اظہار کیا گیا۔ریلی کی قیادت امیرِ جماعتِ اسلامی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم نے کی جبکہ امیرِ جماعتِ اسلامی گجرات چودھری انصار محمود اور امیرِ جماعتِ اسلامی گجرات سٹی ساجد شریف سمیت دیگر قائدین بھی شریک تھے۔ شریکین نے بینرز اور نعرہ بازی کے ذریعے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا اور عالمی برادری کی خاموشی پر سوالات اٹھائے گئے۔ڈاکٹر طارق سلیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر دو برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن نے اسرائیلی جارحیت یا عالمی رہنماؤں پر واضح مذمت جاری نہیں کی، اور انہوں نے حکمران طبقے اور اداروں پر تنقید کی کہ وہ مغربی پذیرائی کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کو دو ریاستی حل کے زور پر چلنے کے بجائے فلسطین کے بارے میں اصولی قومی موقف اپنانا چاہیے۔ احتجاج غزہ کی فضا میں ڈاکٹر طارق سلیم نے خبردار کیا کہ پاکستانی قوم کسی بھی قسم کی اسرائیل کی تسلیم کے خلاف سخت ردِعمل دے گی اور ابراہام معاہدے میں شمولیت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے بحری فلوٹیلا کے شرکاء بالخصوص سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی رہائی کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کی فلوٹیلا کے خلاف کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو دباؤ کے ذریعے اسرائیل کی شناخت کروانے کا ارادہ ہے تو پاکستانی قوم بندوق کے سامنے ایمان کی طاقت سے جواب دے گی۔چودھری انصار محمود نے خطاب میں کہا کہ حماس نے اس معاملے میں حکمت اور ضبط کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کی جدوجہد نے عالمی سامراجیت کے خلاف ایک تاریخی مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے مجاہدین نے نظم و ضبط اور اطاعت کی مثال قائم کی ہے اور ان کی جدوجہد اسلامی تحریکوں کے لیے ایک رہنما اصول بن چکی ہے۔شرکائے اجتماع نے بارہا اس موقف کی توثیق کی کہ قائدِاعظم محمد علی جناح اور پاکستانی قوم کا دیرینہ موقف یہی رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور پاکستان اس کے غیرقانونی وجود کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ احتجاج غزہ کے دوران مقررین نے عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیوں اور مسلم حکمرانوں کی خاموشی پر سوالات اٹھائے اور یکجہتی کے عزم کا اعادہ کیا۔
