پاکستانی مکسڈ مارشل آرٹس ٹیم نے حالیہ بین الاقوامی چیمپئن شپ میں حیران کن کامیابیاں حاصل کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی۔ یہ مہم مکمل طور پر نجی امداد اور ذاتی قربانیوں سے ممکن ہوئی، اور اس میں پچھلے طرزِ کار اور روایتی سہولتوں کی کمی کے باوجود کھلاڑیوں نے ثابت قدمی کا راستہ اپنایا۔عمر احمد کی قیادت میں پاکستان مکسڈ مارشل آرٹس تنظیم نے اپنی ٹیم کے ہوائی سفر، رہائش، تربیتی کیمپ، طبی سہولیات اور مقابلہ خرچ نجی سرپرستی اور ذاتی رابطوں سے پورے کیے۔ عمر احمد نے چھوٹے مگر پرعزم معاونین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہی کی حمایت کے بغیر یہ سفر ممکن نہ ہوتا۔اس مہم کے مرکزی کردار شہاب علی تھے جنہوں نے وزن کلاس میں اپنی تکنیکی مہارت اور بے مثال جنگی ذہنیت دکھائی۔ انہوں نے یوکرائن کے دمیترو نما حریف کو معمولی نہیں چھوڑا، افریقہ کے طاقتور مقابل کار پرنس تافونا کو زیر کیا اور بعد ازاں تاجکستان کے متوقع ستارے قربان علی شومحمدوف کے خلاف شاندار فائنل پرفارمنس دی، جسے بین الاقوامی میڈیا نے ممکنہ سال کی بہترین لڑائی قرار دینے کے قابل سمجھا۔ شہاب کی کارکردگی نے انہیں فائٹر آف دی ٹورنامنٹ کے لیے نامزدگی بھی دلوائی، جو پاکستان کے لیے ایک تاریخی اعزاز ہے۔عبدالمنان نے چھوٹی وزن کیٹیگری میں خود اعتمادی اور درست تکنیک کے ساتھ اہم مقابلے جیتے، جس میں وہ زیمبیا کے ڈینی چلبا اور موجودہ چیمپئن الیور سوونبردیف کو زیر کر کے فائنلز تک پہنچے۔ اسی طرح ایان حسین نے یورپی چکر کے ایک مضبوط حریف قادیر جان عیسی کو تسلی بخش انداز سے ہرا کر پاکستان کے نوجوان طرزِ کار کی حکمرانی کا ثبوت دیا۔ ان لڑائیوں کے بعد دو پاکستانی کھلاڑی میڈلز کے ساتھ اعزاز یافتہ ہو کر پل دو پل کے لیے قومی فخر بن گئے۔اس کاروان کو مشکلات کا سامنا بھی رہا؛ بانو بٹ ایک شدید بازو کے فریکچر اور اعصاب و لیگامینٹس کے نقصانات کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئیں جہاں ایم آر آئی اور سی ٹی اسکینز کرائے گئے۔ تمام طبی اخراجات فیڈریشن اور اس کے صدر نے ذاتی طور پر برداشت کیے، جو اس مہم کے جذباتی اور مالی پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔کئی ماہرین نے بعض تقسیم شدہ فیصلوں پر تنازع کی نشان دہی کی جس میں مضبوط اثر و رسوخ رکھنے والی ٹیموں کے خلاف پاکستان کو ناقص فیصلے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود پاکستانی مکسڈ مارشل آرٹس ٹیم کی کارکردگی نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ٹیم عالمی میدان میں صرف شریک نہیں بلکہ مقابلہ کرنے اور جیتنے آئی ہے۔عمر احمد اور ان کے ساتھیوں کی طویل مدتی حکمت عملی میں نوجوانوں کی تربیت، کردار سازی اور ذہنی صحت کے فروغ کے لیے منصوبے شامل ہیں۔ ریئل ورلڈ فائٹ لیگ اور ریئل فائٹ پروجیکٹ کو بین الاقوامی مکسڈ مارشل آرٹس فیڈریشن کے پائیداری ایوارڈز کے لیے نامزدگی ملی، جو ان پروگراموں کی سماجی اہمیت اور مثبت اثر کا اعتراف ہے۔ اسی سلسلے میں عمر احمد کو ایشیا کے بورڈ میں جنوبی ایشیا کا نمائندہ بھی مقرر کیا گیا، جس سے خطے میں پاکستان کی حکمتِ عملی کو ایک مضبوط آواز ملے گی۔مزید برآں، جیارجیا میں منعقدہ ایک پیشہ ورانہ مقابلے میں اسماعیل خان نے برائیو چیمپئن شپ ۹۹ میں پہلے راؤنڈ میں فاتح آ کر پاکستان کے فتوحات کے تسلسل کو برقرار رکھا، جو پاکستان مکسڈ مارشل آرٹس فیڈریشن کے ترقیاتی ماڈل کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ عمر احمد کا ماننا ہے کہ مسلسل ایسی کارکردگی سال بہ سال تقاضا پورا کرے گی اور بالاخر پاکستان اولمپک کمیٹی اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کی رسمی شناخت کے راستے کھلیں گے۔پاکستانی مکسڈ مارشل آرٹس ٹیم کی یہ مہم محض کھیل کی فتح نہیں بلکہ ایک قومی امیج سازی اور خود کفالت کی مثال ہے، جس نے دکھایا کہ محدود وسائل میں بھی عزم، محنت اور ثابت قدمی سے عالمی سطح پر مقام بنایا جا سکتا ہے۔
