گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ! عالمی قوانین اور انسانیت کی پامالی
امن معاہدے ناجائز قابض اسرائیل کے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ہیں
تحریر: ظہیر احمد اعوان
فلسطین پر جاری مظالم اور غزہ کے محاصرے نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو متحرک کر رکھا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان، صحافیوں، پارلیمنٹیرینز اور عوامی نمائندوں نے مل کر ایک پرامن بحری امدادی قافلہ "گلوبل صمود فلوٹیلا” تیار کیا، جس کا مقصد غزہ کے مظلوم عوام تک خوراک، ادویات اور بنیادی سہولیات پہنچانا تھا۔یہ قافلہ دنیا بھر میں امید کی علامت بن چکا تھا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ خبریں نشر ہو رہی تھیں اور لاکھوں لوگ ان کی کامیابی کے لیے دعاگو تھے۔ لیکن گزشتہ شب قابض اسرائیلی افواج نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پرامن قافلے پر حملہ کیا اور متعدد کارکنان کو گرفتار کر لیا۔اس قافلے میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل تھے، جو طویل عرصے سے مظلوم فلسطینیوں کی توانا آواز ہیں۔ وہ اسلام آباد میں پرامن دھرنوں، احتجاجی مظاہروں اور گرفتاریاں سہنے کے باوجود فلسطینی عوام کے حق میں کھڑے رہے۔ ان کی شمولیت پاکستان کے عوامی جذبات اور اصولی مؤقف کی عکاسی کرتی ہے۔ایک طرف عالمی طاقتیں اور امریکی قیادت امن معاہدوں کا شور مچاتی ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کھلے عام قانون، اخلاق اور انسانیت کو روند رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نام نہاد امن معاہدے قابض اسرائیل کے ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ ناجائز قابض اسرائیل نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اسرائیل دنیا کے کسی بھی قانون یا معاہدے کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ہر روز بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان لے جانے والوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ چوتھے جنیوا کنونشن (1949) کے تحت بھی محاصرے یا جنگ کی صورت میں شہریوں تک امداد پہنچانا لازمی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد A/RES/ES-10/27 (2025) اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1860 (2009) دونوں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ غزہ میں انسانی امداد کے بلا رکاوٹ داخلے کو یقینی بنایا جائے۔اس سب کے باوجود اسرائیلی افواج کا اقدام عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر پر ایک بدنما دھبہ بھی ہے۔اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے، او آئی سی کے پلیٹ فارم پر ہنگامی اجلاس بلایا جائے اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے اس غیر قانونی اقدام کو چیلنج کیا جائے۔فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطے کا تنازعہ نہیں بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ امدادی قافلوں کو روکنا نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی اصولوں کی بھی سنگین پامالی ہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ کیا عالمی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے یا پھر ایک بار پھر ظالم کے سہولت کار بن کر انسانیت کو مزید شرمندہ کریں گے؟
