وارث پراچہ کی جانب سے جڑانوالہ تحصیل ہسپتال میں پیش آنے والی واقعے کی تحریری شکایت موصول ہوئی ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ معمر خاتون مرحومہ کلثوم اختر کو معائنے کے دوران ہراساں کیا گیا۔ شکایت کے مطابق یکم اکتوبر ۲۰۲۵ کو رجسٹریشن کے بعد مریضہ کو ڈاکٹر کے کمرے میں بھیجا گیا تو وہاں ایک غیر مجاز شخص مدثر نے بزرگ خاتون کے ساتھ بدتمیزی اور دھمکیاں دیں اور انہیں کمرے سے نکالنے کی تاہید کی گئی۔مزید بتایا گیا ہے کہ جب ڈاکٹر مظفر داخل ہوئے تو انہوں نے بھی مریضہ کے ساتھ بدسلوکی کی اور معائنہ کرنے سے صاف انکار کیا، اور مبینہ طور پر کہا ’جاؤ بی بی، جو کرو گے کرو، میں آپ کا معائنہ نہیں کروں گا‘۔ اس رویے نے نہ صرف طبی غفلت بلکہ ہراسگی اور ایمانداری کے اصولوں کی خلاف ورزی کا تاثر دیا۔شکایت میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اس واقعے سے متعلق قوانین اور معیار بری طرح پامال ہوئے ہیں جن میں پنجاب ملازمین کارکردگی، نظم و ضبط اور جوابدہی ایکٹ ۲۰۰۶ کے تقاضے اور پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے کم از کم سروس معیار شامل ہیں۔ اسی طرح شکایت میں کہا گیا ہے کہ آئینِ پاکستان کی دفعات ۹، ۱۴ اور ۲۵ کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، خاص طور پر بزرگ شہریوں کے خلاف بدسلوکی اور امتیازی طرز عمل کے حوالہ سے۔شکایت گزار نے واقعے کی شفاف تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر کے خلاف نظم و ضبط کی کارروائی عمل میں لائی جائے اور تفتیش مکمل ہونے تک انہیں معطل کیا جائے تاکہ شواہد محفوظ رہیں اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ مدثر کے خلاف غیر قانونی دخل اندازی اور ہراسانی کے الزام میں قانونی چارہ جوئی بھی مانگی گئی ہے۔شکایت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کے ساتھ احترام اور وقار کے ساتھ پیش آنے کو یقینی بنایا جائے اور کسی بھی طبی کمرے میں غیر مجاز افراد کی مداخلت کو روکا جائے۔ بزرگوں کا احترام سے متعلق مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوری پالیسی اقدامات اور نگرانی کے اہتمام پر بھی زور دیا گیا ہے۔واقعاََ حساس نوعیت کا یہ معاملہ شہری حقوق اور طبی اخلاقیات دونوں کے زاویوں سے اہمیت رکھتا ہے، اور شکایت گزار نے ہسپتال انتظامیہ، متعلقہ محکموں اور ہیلتھ نگراں اداروں سے درخواست کی ہے کہ اس واقعے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں بزرگ شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ بزرگوں کا احترام اس ضمن میں بارہا دہرایا گیا ہے تاکہ اسی طرح کے واقعات کی تکرار روکی جا سکے۔
